Irshad Ahmad Niazi

ارشاد احمد نیازی

ارشاد احمد نیازی کی غزل

    لو ہوں مگر چراغ کے اندر نہیں ہوں میں

    لو ہوں مگر چراغ کے اندر نہیں ہوں میں اتھلی سیاہیوں کو بھی ازبر نہیں ہوں میں دیوار ہوں اور ایک جبیں کا سوال ہوں سمٹے ہوئے قدم کے لیے در نہیں ہوں میں آنکھوں کے پار آخری ندی ہے نیند کی ندی کی تہ میں رینگتا پتھر نہیں ہوں میں شیشے کے اس طرف بھی دکھائی نہیں دیا پانی کے انجماد سے بہتر ...

    مزید پڑھیے

    سوز دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر

    سوز دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر ہر شاخ رکھ رہی ہے گل تر نکال کر لائے حسین آخری لشکر نکال کر خیمے سے تشنہ لب علی اصغر نکال کر تھوڑے ہی دن ہے شاخ شجر پر یہ نغمگی اڑ جائیں گے یہ لوگ نئے پر نکال کر اہل نظر کے سامنے رکھتا ہوں دیکھ لیں لایا ہوں مشت خاک سے گوہر نکال کر یوں بھی ہو مجھ ...

    مزید پڑھیے

    خواہش ہے آئنے پہ تجھے آئینہ کروں

    خواہش ہے آئنے پہ تجھے آئینہ کروں پر حسن بے بہا تری عجلت کا کیا کروں بے کار ہو چکا ہوں ترے ہجر کے طفیل اب تجھ کو انتظار میں کیا مبتلا کروں کاغذ کی ایک ناؤ اتاروں اور اس کے بعد دریا پہ اپنا غیظ و غضب رونما کروں پہلے تجھے ملاؤں کسی خواب زار سے پھر صبح کی دلیل پہ آنکھیں فنا ...

    مزید پڑھیے

    اذیتوں کا نیا سلسلہ تو ہونا تھا

    اذیتوں کا نیا سلسلہ تو ہونا تھا کچھ اس لیے بھی تجھے اب جدا تو ہونا تھا کہ پہلی بار سفر اور وہ بھی تنہا سفر کہ پاش پاش مرا حوصلہ تو ہونا تھا جب ایک عمر ہوئی تیرگی نگلتے ہوئے مرا چراغ سے اب سامنا تو ہونا تھا ادھر ادھر کے سہاروں نے بے سہارا کیا کوئی نہ ہوتا جو میرا خدا تو ہونا ...

    مزید پڑھیے

    ہوا کے ساتھ کوئی حرف چشم تر جائے

    ہوا کے ساتھ کوئی حرف چشم تر جائے میں خود نہ جاؤں تو اس تک مری خبر جائے مرے خلوص پہ قدغن لگائیے صاحب یہ دل وفا کی اذیت سے ہی نہ بھر جائے تو سنگ ساز تڑخنے سے آشنا ہی نہیں تری بلا سے اگر آئنہ بکھر جائے تو کیا میں پیاس کا مارا پڑا رہوں یوں ہی تو کیا یہ ابر مرے ساتھ ہاتھ کر جائے تو ...

    مزید پڑھیے

    اک بھوک ابھری پیرہن زر نگار سے

    اک بھوک ابھری پیرہن زر نگار سے بد صورتی جھلکنے لگی اشتہار سے تشنہ لبی کو پیڑ کے سائے سے کیا غرض نم پھوٹتا ہے راہ سے یا ریگزار سے ممکن ہے اب زمین الٹنی پڑے مجھے کچھ فرق پڑنے والا نہیں جب پکار سے یعنی ترا بدن ہے بناوٹ میں کچھ عجیب یعنی تجھے گریز ہے مٹی کے بار سے آواز ہو چکا ہے ...

    مزید پڑھیے

    نیند تو میں کما کے لاتا ہوں

    نیند تو میں کما کے لاتا ہوں خواب لیکن چرا کے لاتا ہوں تم شجر کو ذرا دلاسا دو میں پرندے بلا کے لاتا ہوں عکس کے آگ میں اترنے تک آئنے میں سجا کے لاتا ہوں لے تو آتا ہوں دشت آنکھوں میں پانیوں کو دکھا کے لاتا ہوں پھل کی قسمت ہے پک کے گر جانا اور میں ٹہنی ہلا کے لاتا ہوں مجھ کو مجھ بن ...

    مزید پڑھیے

    حنائی جلتی پوریں صبر کا پھل دل کا دروازہ

    حنائی جلتی پوریں صبر کا پھل دل کا دروازہ سکڑتی دستکیں حیرت مقفل دل کا دروازہ کہیں پر حبس کا محور کہیں عجلت ہواؤں کی کہیں پر بجلی پہنے اوڑھے بادل دل کا دروازہ مہکتی آس کی دیوار سے کائی اکھڑتی ہے بنے جب سر کی چنری اور آنچل دل کا دروازہ طناب خیمۂ احساس کی وحشت سمیٹے گا اگر کھل ...

    مزید پڑھیے

    خال و خد اوڑھے تصور کو پریشان کیا

    خال و خد اوڑھے تصور کو پریشان کیا عشق نے اپنے تئیں جسم کا نقصان کیا خود چلی آئی ضرورت مرے دروازے پر میں نے اک رہ پہ جو تسکین کو قربان کیا رات ڈھلنے سے بہت پہلے کا قصہ ہے وصال جس نے کچھ بجھتے چراغوں کو پشیمان کیا روشنی اونگھ رہی تھی کہیں دیوار کے بیچ میں نے جب تیرہ مکانوں سے ...

    مزید پڑھیے

    سفید رات کو دن کی دھڑک سمجھتے ہیں

    سفید رات کو دن کی دھڑک سمجھتے ہیں چراغ جیسے ہوا کی لپک سمجھتے ہیں دکھا رہے ہیں وہی جو پسند ہے مجھ کو کہ آئنے مرے دل کی کسک سمجھتے ہیں یہ برتنوں سے چھلکتی ہوئی اداسی ہے جسے ہم ایک بدن کی کھنک سمجھتے ہیں لبوں کے زہر کو چکھنے کی کیا ضرورت ہے فقیر آنکھ میں پھیلی چمک سمجھتے ...

    مزید پڑھیے