اک بھوک ابھری پیرہن زر نگار سے

اک بھوک ابھری پیرہن زر نگار سے
بد صورتی جھلکنے لگی اشتہار سے


تشنہ لبی کو پیڑ کے سائے سے کیا غرض
نم پھوٹتا ہے راہ سے یا ریگزار سے


ممکن ہے اب زمین الٹنی پڑے مجھے
کچھ فرق پڑنے والا نہیں جب پکار سے


یعنی ترا بدن ہے بناوٹ میں کچھ عجیب
یعنی تجھے گریز ہے مٹی کے بار سے


آواز ہو چکا ہے مگر بولتا نہیں
اس لب کو کچھ کلام نہیں اختیار سے