اذیتوں کا نیا سلسلہ تو ہونا تھا

اذیتوں کا نیا سلسلہ تو ہونا تھا
کچھ اس لیے بھی تجھے اب جدا تو ہونا تھا


کہ پہلی بار سفر اور وہ بھی تنہا سفر
کہ پاش پاش مرا حوصلہ تو ہونا تھا


جب ایک عمر ہوئی تیرگی نگلتے ہوئے
مرا چراغ سے اب سامنا تو ہونا تھا


ادھر ادھر کے سہاروں نے بے سہارا کیا
کوئی نہ ہوتا جو میرا خدا تو ہونا تھا


تو میرے ساتھ اگر ایسے ہاتھ نہ کرتا
میں خود کا ہو نہ سکا پر ترا تو ہونا تھا


عجیب شخص ہے عجلت میں کاٹ بیٹھا ہے
وگرنہ پیڑ تھا آخر ہرا تو ہونا تھا


ہمارے بیچ محبت شدید تھی ارشادؔ
ہمارے بیچ بہت فاصلہ تو ہونا تھا