خواہش ہے آئنے پہ تجھے آئینہ کروں
خواہش ہے آئنے پہ تجھے آئینہ کروں
پر حسن بے بہا تری عجلت کا کیا کروں
بے کار ہو چکا ہوں ترے ہجر کے طفیل
اب تجھ کو انتظار میں کیا مبتلا کروں
کاغذ کی ایک ناؤ اتاروں اور اس کے بعد
دریا پہ اپنا غیظ و غضب رونما کروں
پہلے تجھے ملاؤں کسی خواب زار سے
پھر صبح کی دلیل پہ آنکھیں فنا کروں
کچھ دیر بولنے کا اگر اہتمام ہو
میں لفظ کو لکیر کا بھی مدعا کروں