حنائی جلتی پوریں صبر کا پھل دل کا دروازہ

حنائی جلتی پوریں صبر کا پھل دل کا دروازہ
سکڑتی دستکیں حیرت مقفل دل کا دروازہ


کہیں پر حبس کا محور کہیں عجلت ہواؤں کی
کہیں پر بجلی پہنے اوڑھے بادل دل کا دروازہ


مہکتی آس کی دیوار سے کائی اکھڑتی ہے
بنے جب سر کی چنری اور آنچل دل کا دروازہ


طناب خیمۂ احساس کی وحشت سمیٹے گا
اگر کھل جائے صحرا پر مکمل دل کا دروازہ


تمنائے صدا مطلوب آغشتہ بہ خوں منظر
خموش و خستہ اک مدت سے پاگل دل کا دروازہ


بھٹکتی آنکھ غم حیرت اذیت ریشمی پردے
الجھتی نیند اینٹھن خواب مخمل دل کا دروازہ


پرایا ہجر خمیازے کی الجھن ملگجے ارشادؔ
سسکتا وصل کالک آنکھ اوجھل دل کا دروازہ