Irfan Sattar

عرفان ستار

عرفان ستار کی غزل

    وفا کے باب میں اپنا مثالیہ ہو جاؤں

    وفا کے باب میں اپنا مثالیہ ہو جاؤں ترے فراق سے پہلے ہی میں جدا ہو جاؤں میں اپنے آپ کو تیرے سبب سے جانتا ہوں ترے یقین سے ہٹ کر تو واہمہ ہو جاؤں تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے ذرا سا دکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں ابھی میں خوش ہوں تو غافل نہ جان خود سے مجھے نہ جانے کون سی لغزش پہ ...

    مزید پڑھیے

    مرے خوابوں سے اوجھل اس کا چہرہ ہو گیا ہے

    مرے خوابوں سے اوجھل اس کا چہرہ ہو گیا ہے میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ ہجوم شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے جو باغ آرزو تھا اب وہی ہے دشت وحشت یہ دل کیا ہونے ...

    مزید پڑھیے

    اب آ بھی جاؤ، بہت دن ہوئے ملے ہوئے بھی

    اب آ بھی جاؤ، بہت دن ہوئے ملے ہوئے بھی بھلا ہی دیں گے اگر دل میں کچھ گلے ہوئے بھی ہماری راہ الگ ہے، ہمارے خواب جدا ہم ان کے ساتھ نہ ہوں گے، جو قافلے ہوئے بھی ہجوم شہر خرد میں بھی ہم سے اہل جنوں الگ دکھیں گے، گریباں جو ہوں سلے ہوئے بھی ہمیں نہ یاد دلاؤ ہمارے خواب سخن کہ ایک عمر ...

    مزید پڑھیے

    اس طرح دیکھتا ہوں ادھر وہ جدھر نہ ہو

    اس طرح دیکھتا ہوں ادھر وہ جدھر نہ ہو جیسے دکھائی دے کوئی صورت مگر نہ ہو یہ شہر نا شناس ہے کیا اس کا اعتبار اچھا رہے گا وہ جو یہاں معتبر نہ ہو اس طرح چل رہا ہے رعونت کے ساتھ وہ جیسے خرام ناز سے آگے سفر نہ ہو میں آج ہوں سو مجھ کو سماعت بھی چاہیے ممکن ہے یہ سخن کبھی بار دگر نہ ...

    مزید پڑھیے

    دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود

    دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود دیکھیے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود اتنا سناٹا کہ جیسے اولیں شام فراق دم بخود ہے آسماں بھی اور ہوا بھی دم بخود یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدت کہ جب رہ گئی ...

    مزید پڑھیے

    کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا

    کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا ہزار زخم سہے اور دل بڑا رکھا چراغ یوں تو سر طاق دل کئی تھے مگر تمہاری لو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا خرد سے پوچھا جنوں کا معاملہ کیا ہے جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں جو خاک تھا سو اسے خاک میں ملا رکھا ہزار شکر ترا اے ...

    مزید پڑھیے

    بہت خجل ہیں کہ ہم رائیگاں بھی زندہ رہے

    بہت خجل ہیں کہ ہم رائیگاں بھی زندہ رہے جہاں پہ تو بھی نہیں تھا وہاں بھی زندہ رہے عجیب شرط ہے اس بے یقیں مزاج کی بھی کہ تو بھی پاس ہو تیرا گماں بھی زندہ رہے تجھے پہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا کہ تو بھی زندہ رہے داستاں بھی زندہ رہے وہ کون لوگ تھے جن کا وجود جسم سے تھا یہ کون ہیں جو ...

    مزید پڑھیے

    سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گم ہو گیا ہے

    سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گم ہو گیا ہے بتا دوں؟ مجھ سے خود اپنا پتا گم ہو گیا ہے تمہارے دن میں اک روداد تھی جو کھو گئی ہے ہماری رات میں اک خواب تھا، گم ہو گیا ہے وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی کہانی میں کہیں وہ ماجرا گم ہو گیا ہے ذرا اہل جنوں آؤ، ہمیں رستہ سجھاؤ یہاں ...

    مزید پڑھیے

    چپ ہے آغاز میں، پھر شور اجل پڑتا ہے

    چپ ہے آغاز میں، پھر شور اجل پڑتا ہے اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے یاد کا پھول مہکتے ہی نواح شب میں کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے حجرۂ ذات میں سناٹا ہی ایسا ہے کہ دل دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ...

    مزید پڑھیے

    سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی

    سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم جو کج کلاہ تھے ان سے تو بات بھی نہیں کی کبھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود سو ہم نے ذات کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5