Irfan Sattar

عرفان ستار

عرفان ستار کی غزل

    جنوں کے دم سے آخر مرتبہ کیسا ملا مجھ کو

    جنوں کے دم سے آخر مرتبہ کیسا ملا مجھ کو ابھی فرہاد و قیس آئے تھے کہنے مرحبا مجھ کو کسی صورت بھی رد ہوتا نہیں یہ فیصلہ دل کا نظر آتا نہیں کوئی بھی تجھ سا دوسرا مجھ کو سر کنج تمنا پھر خوشی سے گنگناؤں گا اگر وہ لوٹ کر آئے تو پھر تم دیکھنا مجھ کو نہ جان‌ رشک سے غصے سے غم سے یا رقابت ...

    مزید پڑھیے

    دل کے پردے پہ چہرے ابھرتے رہے مسکراتے رہے اور ہم سو گئے

    دل کے پردے پہ چہرے ابھرتے رہے مسکراتے رہے اور ہم سو گئے تری یادوں کے جھونکے گزرتے رہے تھپتھپاتے رہے اور ہم سو گئے یاد آتا رہا کوچہ‌ٔ رفتگاں سر پہ سایہ فگن ہجر کا آسماں نارسائی کے صدمے نکھرتے رہے دل جلاتے رہے اور ہم سو گئے ہجر کے رتجگوں کا اثر یوں ہوا وصل جاناں کا لمحہ بسر یوں ...

    مزید پڑھیے

    شکست خواب کا ہمیں ملال کیوں نہیں رہا

    شکست خواب کا ہمیں ملال کیوں نہیں رہا بچھڑ گئے تو پھر ترا خیال کیوں نہیں رہا اگر یہ عشق ہے تو پھر وہ شدتیں کہاں گئیں اگر یہ وصل ہے تو پھر محال کیوں نہیں رہا وہ زلف زلف رات کیوں بکھر بکھر کے رہ گئی وہ خواب خواب سلسلہ بحال کیوں نہیں رہا وہ سایہ جو بجھا تو کیا بدن بھی ساتھ بجھ ...

    مزید پڑھیے

    اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا

    اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا تو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا وہ سراپا ترا وہ ترے خال و خد میری یادوں میں سب منتشر ہو گئے لفظ کی جستجو میں لرزتا ہوا نیم وا سا فقط اک دہن رہ گیا حرف کے حرف سے کیا تضادات ہیں تو نے بھی کچھ کہا میں نے ...

    مزید پڑھیے

    وہ چراغ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا

    وہ چراغ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوس قرار میں بجھ گیا مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی میں عجیب سادہ مزاج تھا ترے اعتبار میں بجھ گیا مجھے رنج ہے کہ میں موسموں کی توقعات سے کم رہا مری لو کو جس میں اماں ملی میں اسی بہار میں ...

    مزید پڑھیے

    بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رخی سے

    بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رخی سے کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے کسے الزام دوں میں رائیگاں ہونے کا اپنے کہ سارے فیصلے میں نے کیے خود ہی خوشی سے ہر اک لمحے مجھے رہتی ہے تازہ اک شکایت کبھی تجھ سے کبھی خود سے کبھی اس زندگی سے مجھے کل تک بہت خواہش تھی خود سے گفتگو کی میں ...

    مزید پڑھیے

    نظر کو پھر کوئی چہرہ دکھایا جا رہا ہے

    نظر کو پھر کوئی چہرہ دکھایا جا رہا ہے یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے بہت آسودگی سے روز و شب کٹنے لگے ہیں مجھے معلوم ہے مجھ کو گنوایا جا رہا ہے سر مژگاں بگولے آ کے واپس جا رہے ہیں عجب طوفان سینے سے اٹھایا جا رہا ہے مرا غم ہے اگر کچھ مختلف تو اس بنا پر مرے غم کو ہنسی میں ...

    مزید پڑھیے

    کہے دیتا ہوں گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی

    کہے دیتا ہوں گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی بچا کر دل گزرتا جا رہا ہوں ہر تعلق سے کہاں اس آبلے کو تاب ہے اب چوٹ سہنے کی رگ و پے میں نہ ہنگامہ کرے تو کیا کرے آخر اجازت جب نہیں اس رنج کو آنکھوں سے بہنے کی بس اپنی اپنی ترجیحات اپنی اپنی خواہش ...

    مزید پڑھیے

    تردید انا عشق میں کرنے کا نہیں میں

    تردید انا عشق میں کرنے کا نہیں میں اب ترک مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں زنجیر کوئی لا مری وحشت کے برابر اک تیرے کہے سے تو ٹھہرنے کا نہیں میں کل رات عجب دشت بلا پار کیا ہے سو بار سحر سے تو سنورنے کا نہیں میں کیوں مملکت عشق سے بے دخل کیا تھا اب مسند غم سے تو اترنے کا نہیں میں دم ...

    مزید پڑھیے

    آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں

    آج بام حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں بے اماں سائے کا بھی رکھ باد وحشت کچھ خیال دیکھ کر چل درمیان بام و در میں بھی تو ہوں رات کے پچھلے پہر پر شور سناٹوں کے بیچ تو اکیلی تو نہیں اے چشم تر میں بھی تو ہوں تو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5