اس طرح دیکھتا ہوں ادھر وہ جدھر نہ ہو

اس طرح دیکھتا ہوں ادھر وہ جدھر نہ ہو
جیسے دکھائی دے کوئی صورت مگر نہ ہو


یہ شہر نا شناس ہے کیا اس کا اعتبار
اچھا رہے گا وہ جو یہاں معتبر نہ ہو


اس طرح چل رہا ہے رعونت کے ساتھ وہ
جیسے خرام ناز سے آگے سفر نہ ہو


میں آج ہوں سو مجھ کو سماعت بھی چاہیے
ممکن ہے یہ سخن کبھی بار دگر نہ ہو


ہونے دو آج شاخ تمنا کو بارور
ممکن ہے کل نفس کا یہاں سے گزر نہ ہو


میں بھی دکھاؤں شوق کی جولانیاں تجھے
یہ مشت خاک راہ میں حائل اگر نہ ہو


نام و نمود سے مجھے ایسے گریز ہے
جیسے یہ کار خیر ہو کار ہنر نہ ہو


اپنا پتہ بھی ڈھونڈنے جانا ہے ایک دن
فی الحال چاہتا ہوں کہ تو در بدر نہ ہو


اک یہ فریب دیکھنا باقی ہے وقت کا
دل ڈوب جائے اور دوبارہ سحر نہ ہو


یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خاک رہ گزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو