Irfan Sattar

عرفان ستار

عرفان ستار کی غزل

    ہر ایک شکل میں صورت نئی ملال کی ہے

    ہر ایک شکل میں صورت نئی ملال کی ہے ہمارے چاروں طرف روشنی ملال کی ہے ہم اپنے ہجر میں تیرا وصال دیکھتے ہیں یہی خوشی کی ہے ساعت، یہی ملال کی ہے ہمارے خانۂ دل میں نہیں ہے کیا کیا کچھ یہ اور بات کہ ہر شے اسی ملال کی ہے ابھی سے شوق کی آزردگی کا رنج نہ کر کہ دل کو تاب خوشی کی نہ تھی ملال ...

    مزید پڑھیے

    اداس بس عادتاً ہوں کچھ بھی ہوا نہیں ہے

    اداس بس عادتاً ہوں کچھ بھی ہوا نہیں ہے یقین مانو کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے ادھیڑ کر سی رہا ہوں برسوں سے اپنی پرتیں نتیجتاً ڈھونڈنے کو اب کچھ بچا نہیں ہے ذرا یہ دل کی امید دیکھو یقین دیکھو میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں یقیناً اس ...

    مزید پڑھیے

    ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے

    ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو وہی پرانے والے ان کے ہوتے کوئی کمی ہے راتوں کی رونق میں یادیں خواب دکھانے والی خواب سہانے والے کہاں گئیں رنگین پتنگیں لٹو کانچ کے بنٹے اب تو کھیل بھی بچوں کے ہیں دل دہلانے والے وہ آنچل سے خوشبو کی لپٹیں بکھراتے ...

    مزید پڑھیے

    شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے

    شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے ہم آج خلوت جاں میں بھی بے دلی سے گئے گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نا مراد جنوں جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے سنا ہے اہل خرد کا ہے دور آئندہ یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوام وصال جئیں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے ...

    مزید پڑھیے

    اک خواب نیند کا تھا سبب، جو نہیں رہا

    اک خواب نیند کا تھا سبب، جو نہیں رہا اس کا قلق ہے ایسا کہ میں سو نہیں رہا وہ ہو رہا ہے جو میں نہیں چاہتا کہ ہو اور جو میں چاہتا ہوں وہی ہو نہیں رہا نم دیدہ ہوں، کہ تیری خوشی پر ہوں خوش بہت چل چھوڑ، تجھ سے کہہ جو دیا، رو نہیں رہا یہ زخم جس کو وقت کا مرہم بھی کچھ نہیں یہ داغ، سیل ...

    مزید پڑھیے

    چاند بھی کھویا کھویا سا ہے تارے بھی خوابیدہ ہیں

    چاند بھی کھویا کھویا سا ہے تارے بھی خوابیدہ ہیں آج فضا کے بوجھل پن سے لہجے بھی سنجیدہ ہیں جانے کن کن لوگوں سے اس درد کے کیا کیا رشتے تھے ہجر کی اس آباد سرا میں سب چہرے نادیدہ ہیں اتنے برسوں بعد بھی دونوں کیسے ٹوٹ کے ملتے ہیں تو ہے کتنا سادہ دل اور ہم کتنے پیچیدہ ہیں سن جاناں ہم ...

    مزید پڑھیے

    زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں

    زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں اب میں ہوں اور تجھ کو منانے کی جستجو کچھ بھی نہیں ہے راہ میں پندار تک نہیں یعنی مرا وجود ہی مشکوک ہو گیا اب تو میں اپنے آپ سے بیزار تک نہیں دل بھی تھکن سے چور ہوا اور دماغ بھی اور آسماں پہ صبح کے آثار تک ...

    مزید پڑھیے

    یہاں جو ہے کہاں اس کا نشاں باقی رہے گا

    یہاں جو ہے کہاں اس کا نشاں باقی رہے گا مگر جو کچھ نہیں وہ سب یہاں باقی رہے گا سفر ہوگا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی مکاں باقی نہ ہوگا لا مکاں باقی رہے گا کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم غبار ہجرت بے خانماں باقی رہے گا ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی ترے پہلو میں ہونے ...

    مزید پڑھیے

    عجب ہے رنگ چمن جا بجا اداسی ہے

    عجب ہے رنگ چمن جا بجا اداسی ہے مہک اداسی ہے باد صبا اداسی ہے نہیں نہیں یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے میں ٹھیک ٹھاک ہوں ہاں بس ذرا اداسی ہے میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اداسی میں میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اداسی ہے طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں بہت جو پوچھا تو اتنا کہا اداسی ...

    مزید پڑھیے

    کوئی نغمہ بنوں چاندنی نے کہا چاندنی کے لئے ایک تازہ غزل

    کوئی نغمہ بنوں چاندنی نے کہا چاندنی کے لئے ایک تازہ غزل کوئی تازہ غزل پھر کسی نے کہا پھر کسی کے لئے ایک تازہ غزل زخم فرقت کو پلکوں سے سیتے ہوئے سانس لینے کی عادت میں جیتے ہوئے اب بھی زندہ ہو تم زندگی نے کہا زندگی کے لئے ایک تازہ غزل اس کی خواہش پہ تم کو بھروسا بھی ہے اس کے ہونے نہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 5