دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود

دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود
تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود


دیکھیے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں
دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود


اتنا سناٹا کہ جیسے اولیں شام فراق
دم بخود ہے آسماں بھی اور ہوا بھی دم بخود


یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدت کہ جب
رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود


ایک سے عالم میں دونوں مختلف اسباب سے
دم بخود تیرا کرم میری دعا بھی دم بخود


ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمر رواں سیل فنا بھی دم بخود


خوف تجدید تعلق درمیاں حائل رہا
دم بخود تیرا ستم میرا گلا بھی دم بخود


یوں گماں ہوتا ہے دونوں کی توقع ایک تھی
دم بخود تیری وفا میری سزا بھی دم بخود


جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا
دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود