چاند بھی کھویا کھویا سا ہے تارے بھی خوابیدہ ہیں
چاند بھی کھویا کھویا سا ہے تارے بھی خوابیدہ ہیں
آج فضا کے بوجھل پن سے لہجے بھی سنجیدہ ہیں
جانے کن کن لوگوں سے اس درد کے کیا کیا رشتے تھے
ہجر کی اس آباد سرا میں سب چہرے نادیدہ ہیں
اتنے برسوں بعد بھی دونوں کیسے ٹوٹ کے ملتے ہیں
تو ہے کتنا سادہ دل اور ہم کتنے پیچیدہ ہیں
سن جاناں ہم ترک تعلق اور کسی دن کر لیں گے
آج تجھے بھی عجلت سی ہے ہم بھی کچھ رنجیدہ ہیں
کانوں میں اک سرگوشی ہے بے معنی سی سرگوشی
آنکھوں میں کچھ خواب سجے ہیں خواب بھی عمر رسیدہ ہیں
گھر کی وہ مخدوش عمارت گر کے پھر تعمیر ہوئی
اب آنگن میں پیڑ ہیں جتنے سارے شاخ بریدہ ہیں
اس بستی میں ایک سڑک ہے جس سے ہم کو نفرت ہے
اس کے نیچے پگڈنڈی ہے جس کے ہم گرویدہ ہیں