خوف دل میں نہ ترے در کے گدا نے رکھا
خوف دل میں نہ ترے در کے گدا نے رکھا دن کو کشکول بھرا شب کو سرہانے رکھا فکر معیار سخن باعث آزار ہوئی تنگ رکھا تو ہمیں اپنی قبا نے رکھا رات فٹ پاتھ پہ دن بھر کی تھکن کام آئی اس کا بستر بھی کیا سر پہ بھی تانے رکھا خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں مجھ کو محفوظ مری ماں کی دعا نے ...