Iqbal Sajid

اقبال ساجد

مقبول عوامی پاکستانی شاعر ، کم عمری میں وفات

Popular poet from Pakistan/ Died young

اقبال ساجد کی غزل

    خوف دل میں نہ ترے در کے گدا نے رکھا

    خوف دل میں نہ ترے در کے گدا نے رکھا دن کو کشکول بھرا شب کو سرہانے رکھا فکر معیار سخن باعث آزار ہوئی تنگ رکھا تو ہمیں اپنی قبا نے رکھا رات فٹ پاتھ پہ دن بھر کی تھکن کام آئی اس کا بستر بھی کیا سر پہ بھی تانے رکھا خوف آیا نہیں سانپوں کے گھنے جنگل میں مجھ کو محفوظ مری ماں کی دعا نے ...

    مزید پڑھیے

    اس آئنے میں دیکھنا حیرت بھی آئے گی

    اس آئنے میں دیکھنا حیرت بھی آئے گی اک روز مجھ پہ اس کی طبیعت بھی آئے گی قدغن لگا نہ اشکوں پہ یادوں کے شہر میں ہوگا اگر تماشا تو خلقت بھی آئے گی میں آئنہ بنوں گا تو پتھر اٹھائے گا اک دن کھلی سڑک پہ یہ نوبت بھی آئے گی موسم اگر ہے سرد تو پھر آگ تاپ لے چمکے گی آنکھ خوں میں حرارت بھی ...

    مزید پڑھیے

    کٹتے ہی سنگ لفظ گرانی نکل پڑے

    کٹتے ہی سنگ لفظ گرانی نکل پڑے شیشہ اٹھا کہ جوئے معانی نکل پڑے پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے مجھ کو ہے موج موج گرہ باندھنے کا شوق پھر شہر کی طرف نہ روانی نکل پڑے ہوتے ہی شام جلنے لگا یاد کا الاؤ آنسو سنانے دکھ کی کہانی نکل پڑے ساجدؔ تو پھر ...

    مزید پڑھیے

    سرسبز دل کی کوئی بھی خواہش نہیں ہوئی

    سرسبز دل کی کوئی بھی خواہش نہیں ہوئی وہ ہے زمین دل جہاں بارش نہیں ہوئی روئے ہوئے بھی ان کو کئی سال ہو گئے آنکھوں میں آنسوؤں کی نمائش نہیں ہوئی دیوار و در ہیں پاس مگر ان کے باوجود اپنے ہی گھر میں اپنی رہائش نہیں ہوئی باب سخن میں اب وہی مشہور ہو گئے وہ جن کے ذہن سے کوئی کاوش نہیں ...

    مزید پڑھیے

    مجھے نہیں ہے کوئی وہم اپنے بارے میں

    مجھے نہیں ہے کوئی وہم اپنے بارے میں بھرو نہ حد سے زیادہ ہوا غبارے میں تماشا ختم ہوا دھوپ کے مداری کا سنہری سانپ چھپے شام کے پٹارے میں جسے میں دیکھ چکا اس کو لوگ کیوں دیکھیں نہ چھوڑی کوئی بھی باقی کشش نظارے میں وہ بولتا تھا مگر لب نہیں ہلاتا تھا اشارہ کرتا تھا جنبش نہ تھی اشارے ...

    مزید پڑھیے

    ہر کسی کو کب بھلا یوں مسترد کرتا ہوں میں

    ہر کسی کو کب بھلا یوں مسترد کرتا ہوں میں تو ہے خوش قسمت اگر تجھ سے حسد کرتا ہوں میں بغض بھی سینے میں رکھتا ہوں امانت کی طرح نفرتیں کرنے پہ آ جاؤں تو حد کرتا ہوں میں کوئی اپنے آپ کو منوانے والا بھی تو ہو ماننے میں کب کسی کے رد و کد کرتا ہوں میں کچھ شعوری سطح پر کچھ لا شعوری طور ...

    مزید پڑھیے

    پھینک یوں پتھر کہ سطح آب بھی بوجھل نہ ہو

    پھینک یوں پتھر کہ سطح آب بھی بوجھل نہ ہو نقش بھی بن جائے اور دریا میں بھی ہلچل نہ ہو کھول یوں مٹھی کہ اک جگنو نہ نکلے ہاتھ سے آنکھ کو ایسے جھپک لمحہ کوئی اوجھل نہ ہو ہے سفر درپیش تو پرچھائیں کی انگلی پکڑ راہ میں تنہائی کے احساس سے پاگل نہ ہو پہلی سیڑھی پہ قدم رکھ آخری سیڑھی پہ ...

    مزید پڑھیے

    تم مجھے بھی کانچ کی پوشاک پہنانے لگے

    تم مجھے بھی کانچ کی پوشاک پہنانے لگے میں جسے دیکھوں وہی پتھر نظر آنے لگے بے سبب گھر سے نکل کر آ گئے بازار میں آئنہ دیکھا نہیں تصویر چھپوانے لگے دشت میں پہنچے تو تنہائی مکمل ہو گئی بڑھ گئی وحشت تو پھر خود سے ہی ٹکرانے لگے خون کا نشہ چڑھا تو جسم زہریلا ہوا خواہشوں کے پانیوں میں ...

    مزید پڑھیے

    گڑے مردوں نے اکثر زندہ لوگوں کی قیادت کی

    گڑے مردوں نے اکثر زندہ لوگوں کی قیادت کی مری راہوں میں بھی حائل ہیں دیواریں قدامت کی نئی کرنیں پرانے آسماں میں کیوں جگہ پائیں وہ کافر ہے کہ جس نے چڑھتے سورج کی عبادت کی پرانی سیڑھیوں پر میں نئے قدموں کو کیوں رکھوں گراؤں کس لئے چھت سر پہ بوسیدہ عمارت کی ترا احساس بھی ہوگا کبھی ...

    مزید پڑھیے

    کل شب دل آوارہ کو سینے سے نکالا

    کل شب دل آوارہ کو سینے سے نکالا یہ آخری کافر بھی مدینے سے نکالا یہ فوج نکلتی تھی کہاں خانۂ دل سے یادوں کو نہایت ہی قرینے سے نکالا میں خون بہا کر بھی ہوا باغ میں رسوا اس گل نے مگر کام پسینے سے نکالا ٹھہرے ہیں زر و سیم کے حق دار تماشائی اور مار سیہ ہم نے دفینے سے نکالا یہ سوچ کے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4