Iqbal Sajid

اقبال ساجد

مقبول عوامی پاکستانی شاعر ، کم عمری میں وفات

Popular poet from Pakistan/ Died young

اقبال ساجد کی غزل

    بے خبر دنیا کو رہنے دو خبر کرتے ہو کیوں

    بے خبر دنیا کو رہنے دو خبر کرتے ہو کیوں دوستو میرے دکھوں کو مشتہر کرتے ہو کیوں کوئی دروازہ نہ کھولے گا صدائے درد پر بستیوں میں شور و غل شام و سحر کرتے ہو کیوں مجھ سے غربت مول لے کر کون گھر لے جائے گا تم مجھے رسوا سر بازار زر کرتے ہو کیوں آنکھ کے اندھوں کو کیوں دکھلاتے ہو پرواز ...

    مزید پڑھیے

    خشک اس کی ذات کا ساتوں سمندر ہو گیا

    خشک اس کی ذات کا ساتوں سمندر ہو گیا دھوپ کچھ ایسی پڑی وہ شخص بنجر ہو گیا آنگن آنگن زہر برسائے گی اس کی چاندنی وہ اگر مہتاب کی صورت اجاگر ہو گیا میرے آدھے جسم کی اس کو لگے گی بد دعا کل خبر آ جائے گی وہ شخص پتھر ہو گیا کس نے اپنے ہاتھ سے خود موت کا کتبہ لکھا کون اپنی قبر پر عبرت کا ...

    مزید پڑھیے

    لگا دی کاغذی ملبوس پر مہر ثبات اپنی

    لگا دی کاغذی ملبوس پر مہر ثبات اپنی بشر کے نام کر دی ہے خدا نے کائنات اپنی خلا کے آر بھی میں ہوں خلا کے پار بھی میں ہوں عبور اک پل میں کرتا ہوں حدو ممکنات اپنی جیوں گا اپنی مرضی سے مروں گا اپنی مرضی سے مرے زیر تسلط ہے فنا اپنی حیات اپنی لکھی ہے میں نے اپنے ہاتھ پر تحریر آئندہ مری ...

    مزید پڑھیے

    دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا

    دنیا نے زر کے واسطے کیا کچھ نہیں کیا اور ہم نے شاعری کے سوا کچھ نہیں کیا غربت بھی اپنے پاس ہے اور بھوک ننگ بھی کیسے کہیں کہ اس نے عطا کچھ نہیں کیا چپ چاپ گھر کے صحن میں فاقے بچھا دئیے روزی رساں سے ہم نے گلہ کچھ نہیں کیا پچھلے برس بھی بوئی تھیں لفظوں کی کھیتیاں اب کے برس بھی اس کے ...

    مزید پڑھیے

    دہر کے اندھے کنویں میں کس کے آوازہ لگا

    دہر کے اندھے کنویں میں کس کے آوازہ لگا کوئی پتھر پھینک کر پانی کا اندازہ لگا ذہن میں سوچوں کا سورج برف کی صورت نہ رکھ کہر کے دیوار و در پر دھوپ کا غازہ لگا رات بھی اب جا رہی ہے اپنی منزل کی طرف کس کی دھن میں جاگتا ہے گھر کا دروازہ لگا کانچ کے برتن میں جیسے سرخ کاغذ کا گلاب وہ ...

    مزید پڑھیے

    جانے کیوں گھر میں مرے دشت و بیاباں چھوڑ کر

    جانے کیوں گھر میں مرے دشت و بیاباں چھوڑ کر بیٹھتی ہیں بے سر و سامانیاں سر جوڑ کر کتنی نظریں کتنی آسیں کتنی آوازیں یہاں لوٹ جاتی ہیں در و دیوار سے سر پھوڑ کر جانے کس کی کھوج میں پیہم بگولے آج کل پھر رہے ہیں شہر کی گلیوں میں صحرا چھوڑ کر مجھ پہ پتھر پھینکنے والوں کو تیرے شہر ...

    مزید پڑھیے

    عجب صدا یہ نمائش میں کل سنائی دی

    عجب صدا یہ نمائش میں کل سنائی دی کسی نے سنگ سے تصویر کو رہائی دی سنہرے حرف بھی مٹی کے بھاؤ بیچ دیے تجھے تو میں نے نئے ذہن کی کمائی دی بچا سکی نہ مجھے بھیڑ چپ کے قاتل سے ہزار شور مچایا بہت دہائی دی وہ شخص مر کے بھی اپنی جگہ سے ہل نہ سکا کہ اک زمانے نے جنبش تو انتہائی دی کبھی وہ ...

    مزید پڑھیے

    سورج ہوں چمکنے کا بھی حق چاہئے مجھ کو

    سورج ہوں چمکنے کا بھی حق چاہئے مجھ کو میں کہر میں لپٹا ہوں شفق چاہئے مجھ کو ہو جائے کوئی چیز تو مجھ سے بھی عبارت لکھنے کے لیے سادہ ورق چاہئے مجھ کو خنجر ہے تو لہرا کے مرے دل میں اتر جا ہے آنکھ کی خواہش کہ شفق چاہئے مجھ کو ہو وہم کی دستک کہ کسی پاؤں کی آہٹ جینے کے لیے کچھ تو رمق ...

    مزید پڑھیے

    موند کر آنکھیں تلاش بحر و بر کرنے لگے

    موند کر آنکھیں تلاش بحر و بر کرنے لگے لوگ اپنی ذات کے اندر سفر کرنے لگے مانجھیوں کے گیت سن کر آ گیا دریا کو جوش ساحلوں پہ رقص تیزی سے بھنور کرنے لگے بڑھ گیا ہے اس قدر اب سرخ رو ہونے کا شوق لوگ اپنے خون سے جسموں کو تر کرنے لگے باندھ دے شاخوں سے تو مٹی کے پھل کاغذ کے پھول یہ تقاضا ...

    مزید پڑھیے

    اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی

    اک ردائے سبز کی خواہش بہت مہنگی پڑی وقت پڑنے پر ہمیں بارش بہت مہنگی پڑی ہاتھ کیا تاپے کہ پوروں سے دھواں اٹھنے لگا سرد رت میں گرمئ آتش بہت مہنگی پڑی موم کی سیڑھی پہ چڑھ کر چھو رہے تھے آفتاب پھول سے چہروں کو یہ کوشش بہت مہنگی پڑی خار قسمت کیا نکالے ہاتھ زخمی کر لیے ناخن تدبیر کی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4