Iqbal Sajid

اقبال ساجد

مقبول عوامی پاکستانی شاعر ، کم عمری میں وفات

Popular poet from Pakistan/ Died young

اقبال ساجد کی غزل

    خدا نے جس کو چاہا اس نے بچے کی طرح ضد کی

    خدا نے جس کو چاہا اس نے بچے کی طرح ضد کی خدا بخشش کرے گا اس لیے اقبال ساجدؔ کی گواہی دے گا اک دن خود مرا منصف مرے حق میں دھری رہ جائیں گی ساری دلیلیں مرے حاسد کی وہی جو پہلے آیا تھا وہ سب کے بعد بھی آیا اسی پیکر نے تو پہچان کروائی ہے موجد کی جو میرے دل میں تھی اس نے وہی تحریر ...

    مزید پڑھیے

    ملا تو حادثہ کچھ ایسا دل خراش ہوا

    ملا تو حادثہ کچھ ایسا دل خراش ہوا وہ ٹوٹ پھوٹ کے بکھرا میں پاش پاش ہوا تمام عمر ہی اپنے خلاف سازش کی وہ احتیاط کی خود پر نہ راز فاش ہوا ستم تو یہ ہے وہ فرہاد وقت ہے جس نے نہ جوئے شیر نکالی نہ بت تراش ہوا یہی تو دکھ ہے برائی بھی قاعدے سے نہ کی نہ میں شریف رہا اور نہ بد معاش ہوا ہو ...

    مزید پڑھیے

    پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا

    پیاسے کے پاس رات سمندر پڑا ہوا کروٹ بدل رہا تھا برابر پڑا ہوا باہر سے دیکھیے تو بدن ہیں ہرے بھرے لیکن لہو کا کال ہے اندر پڑا ہوا دیوار تو ہے راہ میں سالم کھڑی ہوئی سایہ ہے درمیان سے کٹ کر پڑا ہوا اندر تھی جتنی آگ وہ ٹھنڈی نہ ہو سکی پانی تھا صرف گھاس کے اوپر پڑا ہوا ہاتھوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    اک طبیعت تھی سو وہ بھی لاابالی ہو گئی

    اک طبیعت تھی سو وہ بھی لاابالی ہو گئی ہائے یہ تصویر بھی رنگوں سے خالی ہو گئی پڑھتے پڑھتے تھک گئے سب لوگ تحریریں مری لکھتے لکھتے شہر کی دیوار کالی ہو گئی باغ کا سب سے بڑا جو پیڑ تھا وہ جھک گیا پھل لگے اتنے کہ بوجھل ڈالی ڈالی ہو گئی اب تو دروازے سے اپنے نام کی تختی اتار لفظ ننگے ...

    مزید پڑھیے

    پتہ کیسے چلے دنیا کو قصر دل کے جلنے کا

    پتہ کیسے چلے دنیا کو قصر دل کے جلنے کا دھوئیں کو راستہ ملتا نہیں باہر نکلنے کا بتا پھولوں کی مسند سے اتر کے تجھ پہ کیا گزری مرا کیا میں تو عادی ہو گیا کانٹوں پہ چلنے کا مرے گھر سے زیادہ دور صحرا بھی نہیں لیکن اداسی نام ہی لیتی نہیں باہر نکلنے کا چڑھے گا زہر خوشبو کا اسے آہستہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ مسلسل چپ ہے تیرے سامنے تنہائی میں

    وہ مسلسل چپ ہے تیرے سامنے تنہائی میں سوچتا کیا ہے اتر جا بات کی گہرائی میں سرخ رو ہونے نہ پایا تھا کہ پیلا پڑ گیا چاند کا بھی ہاتھ تھا جذبات کی پسپائی میں بے لباسی ہی نہ بن جائے کہیں تیرا لباس آئینے کے سامنے پاگل نہ ہو تنہائی میں تو اگر پھل ہے تو خود ہی ٹوٹ کر دامن میں آ میں نہ ...

    مزید پڑھیے

    ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی

    ایسے گھر میں رہ رہا ہوں دیکھ لے بے شک کوئی جس کے دروازے کی قسمت میں نہیں دستک کوئی یوں تو ہونے کو سبھی کچھ ہے مرے دل میں مگر اس دکاں پر آج تک آیا نہیں گاہک کوئی وہ خدا کی کھوج میں خود آخری حد تک گیا خود کو پانے کی مگر کوشش نہ کی انتھک کوئی باغ میں کل رات پھولوں کی حویلی لٹ گئی چشم ...

    مزید پڑھیے

    وہ دوست تھا تو اسی کو عدو بھی ہونا تھا

    وہ دوست تھا تو اسی کو عدو بھی ہونا تھا لہو پہن کے مجھے سرخ رو بھی ہونا تھا سنہری ہاتھ میں تازہ لہو کی فصل نہ دی کہ اپنے حق کے لیے جنگجو بھی ہونا تھا بگولہ بن کے سمندر میں خاک اڑانا تھی کہ لہر لہر مجھے تند خو بھی ہونا تھا مرے ہی حرف دکھاتے تھے میری شکل مجھے یہ اشتہار مرے روبرو بھی ...

    مزید پڑھیے

    وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا

    وہ چاند ہے تو عکس بھی پانی میں آئے گا کردار خود ابھر کے کہانی میں آئے گا چڑھتے ہی دھوپ شہر کے کھل جائیں گے کواڑ جسموں کا رہ گزار روانی میں آئے گا آئینہ ہاتھ میں ہے تو سورج پہ عکس ڈال کچھ لطف بھی سراغ رسائی میں آئے گا رخت سفر بھی ہوگا مرے ساتھ شہر میں صحرا بھی شوق نقل مکانی میں ...

    مزید پڑھیے

    غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا

    غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا کسی قیدی کا نہ کردار مثالی نکلا چڑھتے سورج نے ہر اک ہاتھ میں کشکول دیا صبح ہوتے ہی ہر اک گھر سے سوالی نکلا سب کی شکلوں میں تری شکل نظر آئی مجھے قرعۂ فال مرے نام پہ گالی نکلا راس آئے مجھے مرجھاتے ہوئے زرد گلاب غم کا پرتو مرے چہرے کی بحالی نکلا کٹ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4