تم مجھے بھی کانچ کی پوشاک پہنانے لگے

تم مجھے بھی کانچ کی پوشاک پہنانے لگے
میں جسے دیکھوں وہی پتھر نظر آنے لگے


بے سبب گھر سے نکل کر آ گئے بازار میں
آئنہ دیکھا نہیں تصویر چھپوانے لگے


دشت میں پہنچے تو تنہائی مکمل ہو گئی
بڑھ گئی وحشت تو پھر خود سے ہی ٹکرانے لگے


خون کا نشہ چڑھا تو جسم زہریلا ہوا
خواہشوں کے پانیوں میں سانپ لہرانے لگے


کچھ نہیں ہے ذہن میں تو وہم کی شکلیں بنا
روشنی ہوگی اگر سائے نظر آنے لگے


دیکھنا چاہا تو وہ آنکھوں سے اوجھل ہو گیا
چومنا چاہا تو میرے ہونٹ پتھرانے لگے


رنگ آخر لے ہی آیا میری سوچوں کا جمود
برف کے سورج بلا کی دھوپ پھیلانے لگے


چل پڑے تو ہو لئے اقبال ساجدؔ اپنے ساتھ
تھک گئے تو اپنے ہی سائے ہیں سستانے لگے