سرسبز دل کی کوئی بھی خواہش نہیں ہوئی
سرسبز دل کی کوئی بھی خواہش نہیں ہوئی
وہ ہے زمین دل جہاں بارش نہیں ہوئی
روئے ہوئے بھی ان کو کئی سال ہو گئے
آنکھوں میں آنسوؤں کی نمائش نہیں ہوئی
دیوار و در ہیں پاس مگر ان کے باوجود
اپنے ہی گھر میں اپنی رہائش نہیں ہوئی
باب سخن میں اب وہی مشہور ہو گئے
وہ جن کے ذہن سے کوئی کاوش نہیں ہوئی