خشک اس کی ذات کا ساتوں سمندر ہو گیا

خشک اس کی ذات کا ساتوں سمندر ہو گیا
دھوپ کچھ ایسی پڑی وہ شخص بنجر ہو گیا


آنگن آنگن زہر برسائے گی اس کی چاندنی
وہ اگر مہتاب کی صورت اجاگر ہو گیا


میرے آدھے جسم کی اس کو لگے گی بد دعا
کل خبر آ جائے گی وہ شخص پتھر ہو گیا


کس نے اپنے ہاتھ سے خود موت کا کتبہ لکھا
کون اپنی قبر پر عبرت کا پتھر ہو گیا


قرب جب حد سے بڑھا دوری مقدر ہو گئی
اس کا ملنا بھی نہ ملنے کے برابر ہو گیا


میں کہ باہر کی فضا میں قید تھا جس کے سبب
آج وہ خود جنس کے پنجرے کے اندر ہو گیا


مفت میں تقسیم کی ساجدؔ متاع شاعری
جس نے اپنا قرب اپنایا وہ شاعر ہو گیا