لگا دی کاغذی ملبوس پر مہر ثبات اپنی

لگا دی کاغذی ملبوس پر مہر ثبات اپنی
بشر کے نام کر دی ہے خدا نے کائنات اپنی


خلا کے آر بھی میں ہوں خلا کے پار بھی میں ہوں
عبور اک پل میں کرتا ہوں حدو ممکنات اپنی


جیوں گا اپنی مرضی سے مروں گا اپنی مرضی سے
مرے زیر تسلط ہے فنا اپنی حیات اپنی


لکھی ہے میں نے اپنے ہاتھ پر تحریر آئندہ
مری اپنی وراثت ہے قلم اپنا دوات اپنی


میں خود پر آزماؤں گا خود اپنا آخری داؤ
خبر ہے مجھ کو ساجدؔ جیت بن جائے گی مات اپنی