نہ کوئی عکس نہ آواز نہ چہرا ہوگا

نہ کوئی عکس نہ آواز نہ چہرا ہوگا
دور تک ایک جھلستا ہوا صحرا ہوگا


کچھ تو آتا ہے نظر دن میں دھندلکا ہی سہی
شام ڈھلتے ہی دھواں اور بھی گہرا ہوگا


منتظر کس لیے اب تک ہیں چراغوں کی لویں
وہ مسافر تھا کہیں اور بسیرا ہوگا


یہ اجڑتے ہوئے جنگل یہ غبار اور یہ پیاس
لوگ کہتے ہیں کسی دن یہاں صحرا ہوگا


مان بھی جاؤ کہ سر پر ہے کڑی دھوپ ابھی
ڈوبتی شام کا ہر رنگ سنہرا ہوگا