عجیب طرز تکلم سے آزما کے مجھے

عجیب طرز تکلم سے آزما کے مجھے
وہ چاہتا ہے ابھی دیکھنا جھکا کے مجھے


میں دیر سے ہی سہی گھر پہنچ گیا آخر
وہ مطمئن تھا نیا راستہ دکھا کے مجھے


اک عمر میں نے جسے غور سے نہیں دیکھا
رکھا اسی نے کڑی دھوپ سے بچا کے مجھے


میں آئنہ ہوں یہ اس کو خبر نہ تھی شاید
وہ شرمسار ہوا روشنی میں لا کے مجھے


کبھی جہاں پہ ہزاروں چراغ جلتے تھے
ملا سکون وہاں اک دیا جلا کے مجھے


سرور صحن چمن سے سکوت دشت طلب
کہاں سے لائیں ہوائیں کہاں اڑا کے مجھے