ایمان قیصرانی کی غزل

    ہنسنے رونے سے گئے ربط بڑھانے سے گئے

    ہنسنے رونے سے گئے ربط بڑھانے سے گئے ایسی افتاد پڑی سارے زمانے سے گئے وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی اپنے سجدوں سے گئے رزق کمانے سے گئے دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے اس قدر قحط وفا ہے مرے اطراف کہ اب یار یاروں کو بھی احوال سنانے سے ...

    مزید پڑھیے

    اس قدر حوادث ہیں راستہ نہیں ملتا

    اس قدر حوادث ہیں راستہ نہیں ملتا زندگی کے مصرعوں کا قافیہ نہیں ملتا تیرے بن پلٹ جاؤں یہ بھی اب نہیں ممکن اور آگے بڑھنے کا حوصلہ نہیں ملتا آپ اپنی صورت کو خود پہ آشکارا کر شہر کی فصیلوں پر آئنہ نہیں ملتا بے چراغ رستوں پر بے شمار جگنو تھے پھر بھی ایک بلبل کو گھونسلہ نہیں ...

    مزید پڑھیے

    اساس تک پہنچ گئیں حواس تک پہنچ گئیں

    اساس تک پہنچ گئیں حواس تک پہنچ گئیں نصیب کی سیاہیاں لباس تک پہنچ گئیں بس ایک سرد آہ سے لبوں پہ نیل پڑ گئے ہماری نارسائیاں ہراس تک پہنچ گئیں پھر آئے دن کی دشمنی محبتوں میں ڈھل گئی کہ گھٹتی گھٹتی تلخیاں مٹھاس تک پہنچ گئیں یہ عشق اور مشک بھی چھپائے کب چھپے بھلا نکل کے سب کہانیاں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2