ہنسنے رونے سے گئے ربط بڑھانے سے گئے
ہنسنے رونے سے گئے ربط بڑھانے سے گئے
ایسی افتاد پڑی سارے زمانے سے گئے
وہ تعفن ہے کہ اس بار زمیں کے باسی
اپنے سجدوں سے گئے رزق کمانے سے گئے
دل تو پہلے ہی جدا تھے یہاں بستی والو
کیا قیامت ہے کہ اب ہاتھ ملانے سے گئے
اس قدر قحط وفا ہے مرے اطراف کہ اب
یار یاروں کو بھی احوال سنانے سے گئے
اپنا یہ حال کہ ہیں جان بچانے میں مگن
اور اجداد جو ہیں جان لڑانے میں گئے
تجھ کو کیا علم کہ ہم تیری محبت کے طفیل
ساری دنیا سے کٹے سارے زمانے سے گئے