ایمان قیصرانی کی نظم

    کاسنی

    کاسنی دوپٹے کے ان سنہرے پھولوں پر تم نے ہاتھ کیا رکھا اس کے بعد دنیا نے جب بھی مڑ کے دیکھا تو اس نگر کی وہ لڑکی روشنی لپیٹے بس چاندنی نظر آئی کاسنی نظر آئی

    مزید پڑھیے

    تو خفا ہو تو بہت دور کہیں

    راستے گرد میں اٹتے ہوئے راہی سے بچھڑ جاتے ہیں خون روتی ہوئی آنکھوں میں کہیں شام اتر جاتی ہے آسماں کے سبھی جھلمل سے منور تارے راکھ بن کر کسی تاریک سمندر میں بھٹک جاتے ہیں پھول جو شاخ کی زینت تھے بکھر جاتے ہیں اجنبی دیس میں پھر دور بہت دور کہیں ایک ہنستا سا منور چہرہ کیسی تاریک ...

    مزید پڑھیے