اساس تک پہنچ گئیں حواس تک پہنچ گئیں
اساس تک پہنچ گئیں حواس تک پہنچ گئیں
نصیب کی سیاہیاں لباس تک پہنچ گئیں
بس ایک سرد آہ سے لبوں پہ نیل پڑ گئے
ہماری نارسائیاں ہراس تک پہنچ گئیں
پھر آئے دن کی دشمنی محبتوں میں ڈھل گئی
کہ گھٹتی گھٹتی تلخیاں مٹھاس تک پہنچ گئیں
یہ عشق اور مشک بھی چھپائے کب چھپے بھلا
نکل کے سب کہانیاں کلاس تک پہنچ گئیں
ہمارے دکھ کی برکتیں سہیلیوں نے بوجھ لیں
اور ان کی خوش کلامیاں بھڑاس تک پہنچ گئیں
مرے سخن میں ڈھل گئی مرے دکھوں کی داستاں
ترے جنوں کی تلخیاں گلاس تک پہنچ گئیں
تھکن کے سارے زاویے مسہریوں پہ رہ گئے
بدن کی ساری سلوٹیں کپاس تک پہنچ گئیں
مرے رحیم آپ کی عطائیں بے شمار ہیں
شروع حمد سے ہوئیں تو ناس تک پہنچ گئیں