Iftikhar Naseem

افتخار نسیم

ہم جنس پرست پاکستانی شاعر جو امریکہ میں رہتے تھے

Known for open expression of homosexual themes in Urdu literature.

افتخار نسیم کی غزل

    بن گیا ہے جسم گزرے قافلوں کی گرد سا

    بن گیا ہے جسم گزرے قافلوں کی گرد سا کتنا ویراں کر گیا مجھ کو مرا ہم درد سا کیا ابھی تک اس کا رستہ روکتی ہے کوئی سوچ میرے ہاتھوں میں ہے اس کا ہاتھ لیکن سرد سا اس طرح گھل مل گیا آ کر نئے ماحول میں وہ بھی اب لگتا ہے میرے گھر کا ہی اک فرد سا جذب تھا جیسے کوئی سورج ہی اس کے جسم میں دور ...

    مزید پڑھیے

    اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو

    اس قدر بھی تو نہ جذبات پہ قابو رکھو تھک گئے ہو تو مرے کاندھے پہ بازو رکھو بھولنے پائے نہ اس دشت کی وحشت دل سے شہر کے بیچ رہو باغ میں آہو رکھو خشک ہو جائے گی روتے ہوئے صحرا کی طرح کچھ بچا کر بھی تو اس آنکھ میں آنسو رکھو روشنی ہوگی تو آ جائے گا رہرو دل کا اس کی یادوں کے دیے طاق میں ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے

    ہاتھ ہاتھوں میں نہ دے بات ہی کرتا جائے ہے بہت لمبا سفر یوں تو نہ ڈرتا جائے جی میں ٹھانی ہے کہ جینا ہے بہرحال مجھے جس کو مرنا ہے وہ چپ چاپ ہی مرتا جائے خود کو مضبوط بنا رکھے پہاڑوں کی طرح ریت کا آدمی اندر سے بکھرتا جائے سرخ پھولوں کا نہیں زرد اداسی کا سہی رنگ کچھ تو مری تصویر میں ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے حق میں سہی فیصلہ ہوا تو ہے

    کسی کے حق میں سہی فیصلہ ہوا تو ہے مرا نہیں وہ کسی شخص کا ہوا تو ہے یہی بہت ہے کہ اس نے مجھے بھی مس تو کیا یہ لمس مجھ میں ابھی تک رچا ہوا تو ہے اسے میں کھل کے کبھی یاد کر تو سکتا ہوں مجھے خوشی ہے وہ مجھ سے جدا ہوا تو ہے سکوت شب ہی سہی میرا ہم سفر لیکن مرے سوا بھی کوئی جاگتا ہوا تو ...

    مزید پڑھیے

    اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا

    اس کے چہرے کی چمک کے سامنے سادہ لگا آسماں پہ چاند پورا تھا مگر آدھا لگا جس گھڑی آیا پلٹ کر اک مرا بچھڑا ہوا عام سے کپڑوں میں تھا وہ پھر بھی شہزادہ لگا ہر گھڑی تیار ہے دل جان دینے کے لیے اس نے پوچھا بھی نہیں یہ پھر بھی آمادہ لگا کارواں ہے یا سراب زندگی ہے کیا ہے یہ ایک منزل کا ...

    مزید پڑھیے

    مشعل امید تھامو رہ نما جیسا بھی ہے

    مشعل امید تھامو رہ نما جیسا بھی ہے اب تو چلنا ہی پڑے گا راستا جیسا بھی ہے کس لیے سر کو جھکائیں اجنبی کے سامنے اس سے ہم واقف تو ہیں اپنا خدا جیسا بھی ہے کس کو فرصت تھی ہجوم شوق میں جو سوچتا دل نے اس کو چن لیا وہ بے وفا جیسا بھی ہے ساری دنیا میں وہ میرے واسطے بس ایک ہے پھول سا چہرہ ...

    مزید پڑھیے

    جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے

    جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے اداس نام کھلا در پکارتا ہے مجھے کسی کی چاپ مسلسل سنائی دیتی ہے سفر میں کوئی برابر پکارتا ہے مجھے صدف ہوں لہریں در جسم کھٹکھٹاتی ہیں کنار آب وہ گوہر پکارتا ہے مجھے ہر ایک موڑ مرے پاؤں سے لپٹتا ہے ہر ایک میل کا پتھر پکارتا ہے مجھے پھنسا ہوا ہے ...

    مزید پڑھیے

    اپنی مجبوری بتاتا رہا رو کر مجھ کو

    اپنی مجبوری بتاتا رہا رو کر مجھ کو وہ ملا بھی تو کسی اور کا ہو کر مجھ کو میں خدا تو نہیں جو اس کو دکھائی نہ دیا ڈھونڈھتا میرا پجاری کبھی کھو کر مجھ کو پا لیا جس نے تہہ آب بھی اپنا ساحل مطمئن تھا مرا طوفان ڈبو کر مجھ کو ریگ ساحل پہ لکھی وقت کی تحریر ہوں میں موج آئے تو چلی جائے گی ...

    مزید پڑھیے

    لباس خاک سہی پر کہیں ضرور ہوں میں

    لباس خاک سہی پر کہیں ضرور ہوں میں بتا رہی ہے چمک آنکھ کی کہ نور ہوں میں کوئی نہیں جو مری لو سے راستہ دیکھے ہوائے تند بجھا دے ترے حضور ہوں میں پناہ دیتا نہیں کوئی اور سیارہ بھٹک رہا ہوں خلا میں زمیں سے دور ہوں میں نہ ہو گرا کے مجھے تو بھی خاک میں مل جائے مجھے گلے سے لگا لے ترا ...

    مزید پڑھیے

    اپنا سارا بوجھ زمیں پر پھینک دیا

    اپنا سارا بوجھ زمیں پر پھینک دیا تجھ کو خط لکھا اور لکھ کر پھینک دیا خود کو ساکن دیکھا ٹھہرے پانی میں جانے کیا کچھ سوچ کے پتھر پھینک دیا دیواریں کیوں خالی خالی لگتی ہیں کس نے سب کچھ گھر سے باہر پھینک دیا میں تو اپنا جسم سکھانے نکلا تھا بارش نے پھر مجھ پہ سمندر پھینک دیا وہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4