جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے

جلا وطن ہوں مرا گھر پکارتا ہے مجھے
اداس نام کھلا در پکارتا ہے مجھے


کسی کی چاپ مسلسل سنائی دیتی ہے
سفر میں کوئی برابر پکارتا ہے مجھے


صدف ہوں لہریں در جسم کھٹکھٹاتی ہیں
کنار آب وہ گوہر پکارتا ہے مجھے


ہر ایک موڑ مرے پاؤں سے لپٹتا ہے
ہر ایک میل کا پتھر پکارتا ہے مجھے


پھنسا ہوا ہے مرے ہاتھ کی لکیروں میں
مرا ہمائے مقدر پکارتا ہے مجھے


نہ جانے کیا تھا کہ میں دوریوں میں کھو آیا
وہ اپنے پاس بلا کر پکارتا ہے مجھے


چلی ہے شام شفق رنگ بادباں لے کر
دبیز شب کا سمندر پکارتا ہے مجھے


پروں کا بوجھ جھٹک کر میں اڑ گیا ہوں نسیمؔ
زمین پر مرا پیکر پکارتا ہے مجھے