لباس خاک سہی پر کہیں ضرور ہوں میں
لباس خاک سہی پر کہیں ضرور ہوں میں
بتا رہی ہے چمک آنکھ کی کہ نور ہوں میں
کوئی نہیں جو مری لو سے راستہ دیکھے
ہوائے تند بجھا دے ترے حضور ہوں میں
پناہ دیتا نہیں کوئی اور سیارہ
بھٹک رہا ہوں خلا میں زمیں سے دور ہوں میں
نہ ہو گرا کے مجھے تو بھی خاک میں مل جائے
مجھے گلے سے لگا لے ترا غرور ہوں میں
نکل پڑا ہوں یوں ہی اتنی برف باری میں
بدن کے گرم لہو کا عجب سرور ہوں میں
سزا بھی کاٹ چکا ہوں میں جس خطا کی نسیمؔ
کسے پکاروں کہوں اس میں بے قصور ہوں میں