Iftikhar Haidar

افتخار حیدر

افتخار حیدر کی غزل

    وحشت فراق خوف ترا دھیان الامان

    وحشت فراق خوف ترا دھیان الامان کتنی بلائیں ہیں مری مہمان الامان آنکھوں کو خیرہ کر گیا اک جلوۂ شریر اور دل کو کھا گئی تری مسکان الامان اک سلسلہ جڑا تھا کہ پھر آنکھ کھل گئی کس درجہ ہو گیا مرا نقصان الامان اے حسن دل فریب ذرا دیر کو فریب کرنے لگا ہے ہجر پریشان الامان اے عشق ...

    مزید پڑھیے

    آرزوئیں نہ چھین خواب نہ چھین

    آرزوئیں نہ چھین خواب نہ چھین میرا سامان اضطراب نہ چھین سر سے امید کا سحاب نہ چھین میں کہ صحرا میں ہوں سراب نہ چھین ہجر بے چینی بے بسی گریہ یہ محبت کا ہے نصاب نہ چھین زخم دل کی نہ چارہ سازی کر میرے سینے کا ماہتاب نہ چھین تاکنے دے حسین چہروں کو یار مجھ سے مرا شباب نہ چھین ختم ...

    مزید پڑھیے

    زخم دکھانے لگ جاتی ہے جان کو آنے لگ جاتی ہے

    زخم دکھانے لگ جاتی ہے جان کو آنے لگ جاتی ہے رات گئے تنہائی جس دم شور مچانے لگ جاتی ہے عشق دماغ کی چکر بازی حسن سراسر دید کا دھوکہ دل کو یہ سب کہتے کہتے عمر ٹھکانے لگ جاتی ہے اس شرمیلی سی لڑکی سے جب بھی دل کی حالت پوچھی سیدھی بات نہیں کرتی ہے نظم سنانے لگ جاتی ہے رات کو محرم راز ...

    مزید پڑھیے

    کوئی ان ہونا واقعہ نہیں ہے

    کوئی ان ہونا واقعہ نہیں ہے عشق میرے لیے نیا نہیں ہے تجھ کو ہر بات کا پتہ نہیں ہے تو مرا عشق ہے خدا نہیں ہے یوں نشانے نہ تاک تاک کے مار ایک ہی دل ہے دوسرا نہیں ہے یہ جو ہم روز لفظ بنتے ہیں مسئلہ ہے یہ مشغلہ نہیں ہے توڑتا ہے حدود کون و مکاں درد کا کوئی دائرہ نہیں ہے دو کنارے ہیں ...

    مزید پڑھیے

    تو وجہ زندگی ہے جواز حیات ہے

    تو وجہ زندگی ہے جواز حیات ہے وہ مجھ سے کہہ رہی تھی ابھی کل کی بات ہے پہلے پہل تو ہم ترے دل میں مقیم تھے پہلے کی بات اور تھی اب اور بات ہے وہ کائنات بھی ہے ترے حسن کی اسیر اس کائنات سے جو پرے کائنات ہے وہ آ ملا ہے وقت کی دیوار پھاند کر یہ عشق ہے اور عشق در ممکنات ہے کہتا تھا جس کو ...

    مزید پڑھیے

    فیض عہد جدید تنہائی

    فیض عہد جدید تنہائی سہہ رہا ہوں شدید تنہائی بڑھتا جاتا ہے حلقۂ احباب بڑھ رہی ہے مزید تنہائی ہے جہاں تک بھی سوچ سناٹا ہے جہاں تک بھی دید تنہائی بیٹھ کر دوستوں کی محفل میں کر رہا ہوں کشید تنہائی پاس حبل الورید کے ہے خدا زیر حبل الورید تنہائی گھر سے گھبرا کے باہر آیا تھا گھر سے ...

    مزید پڑھیے

    تیور بھید بتاتے ہیں یہ نم آلود ہواؤں کے

    تیور بھید بتاتے ہیں یہ نم آلود ہواؤں کے آج ذرا کھل کھیلنے والے ہیں انداز گھٹاؤں کے کمرہ بند کیا اور سارے ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے آنکھیں ڈھیلی چھوڑیں رستے کھول دیے دریاؤں کے دوگانہ آزار ہے صاحب ہم جیسوں کی قسمت میں ہم محتاج رویوں کے اور ہم مجبور اناؤں کے دیکھ لے کتنے کشٹ اٹھا کر ...

    مزید پڑھیے

    بڑھاؤ ہاتھ بڑھاؤ فقیر موج میں ہے

    بڑھاؤ ہاتھ بڑھاؤ فقیر موج میں ہے تونگرو ادھر آؤ فقیر موج میں ہے جسے بھی چاہیے خیرات نور لے جائے بھڑک رہا ہے الاؤ فقیر موج میں ہے خرید لے نہ تمہاری یہ کائنات تمام اسے بتانا نہ بھاؤ فقیر موج میں ہے گرا ہوا تو نہیں ہے زمیں کو تھامے ہے زمین سے نہ اٹھاؤ فقیر موج میں ہے بس اک طریقہ ...

    مزید پڑھیے

    گزشتہ شب جو اتنی روشنی تھی

    گزشتہ شب جو اتنی روشنی تھی تمہاری یاد کی جلوہ گری تھی فضا میں گنگناہٹ تھی عجب سی ہوا پتوں سے باتیں کر رہی تھی غزل جیسا سراپا تھا کسی کا کوئی صورت مکمل شاعری تھی ترے الفاظ نشتر بن گئے تھے محبت انتہا پر آ گئی تھی سنا ہے بعد میرے کچھ دنوں تک وہ مٹی پر لکیریں کھینچتی تھی وہ گاہے ...

    مزید پڑھیے

    جب ایک شخص اپنا ٹھکانہ بدل گیا

    جب ایک شخص اپنا ٹھکانہ بدل گیا پھر اس کے ساتھ سارا زمانہ بدل گیا بدلی نگاہ ناز کسی خوش جمال نے بدلا رخ کمان نشانہ بدل گیا بارش میں تیز دھوپ نکل آئی چار سو موسم تھا وہ جو خوب سہانا بدل گیا وہ شخص بے ثبات کا مطلب بتائے گا وہ شخص جس کا دوست پرانا بدل گیا ہجرت کے ساتھ ساتھ معیشت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3