تو وجہ زندگی ہے جواز حیات ہے
تو وجہ زندگی ہے جواز حیات ہے
وہ مجھ سے کہہ رہی تھی ابھی کل کی بات ہے
پہلے پہل تو ہم ترے دل میں مقیم تھے
پہلے کی بات اور تھی اب اور بات ہے
وہ کائنات بھی ہے ترے حسن کی اسیر
اس کائنات سے جو پرے کائنات ہے
وہ آ ملا ہے وقت کی دیوار پھاند کر
یہ عشق ہے اور عشق در ممکنات ہے
کہتا تھا جس کو میں بھی کبھی حسن بے مثال
دراصل بے مثال نہیں بے ثبات ہے
تم موت سے ڈراؤ یا بھوک اور پیاس سے
خیمے یہیں لگیں گے یہیں پہ فرات ہے
بارش پھوار رات کی رانی ہوا کا شور
یہ رات آج کی بڑی پر کیف رات ہے