زخم دکھانے لگ جاتی ہے جان کو آنے لگ جاتی ہے
زخم دکھانے لگ جاتی ہے جان کو آنے لگ جاتی ہے
رات گئے تنہائی جس دم شور مچانے لگ جاتی ہے
عشق دماغ کی چکر بازی حسن سراسر دید کا دھوکہ
دل کو یہ سب کہتے کہتے عمر ٹھکانے لگ جاتی ہے
اس شرمیلی سی لڑکی سے جب بھی دل کی حالت پوچھی
سیدھی بات نہیں کرتی ہے نظم سنانے لگ جاتی ہے
رات کو محرم راز سمجھ کر رات سے راز کی بات کہو تو
رات کہاں چپ رہ پاتی ہے بات بڑھانے لگ جاتی ہے
اندر کے حالات کو باہر کی دنیا سے لاکھ چھپائیں
وحشت گھر کی بھیدی بن کر لنکا ڈھانے لگ جاتی ہے