Iftikhar Bukhari

افتخار بخاری

افتخار بخاری کی نظم

    وصیت

    میرے پاس تین چیزیں ہیں ریت مجھے وراثت میں ملی پتھر میں نے محنت سے کمایا اور یہ تھوڑی سی دھوپ مجھے سڑک پر پڑی ہوئی ملی میں نے ریت سے اپنی عمر بنائی میں نے پتھر اپنے پیٹ پر باندھا میں نے دھوپ سے اپنا سایہ بنایا میں اپنے سائے میں چلتا ہوں میں اپنی دھوپ میں جلتا ہوں میں کسی پیڑ کا ...

    مزید پڑھیے

    چلتی رہتی ہے

    چلتی رہتی ہے دائیں بائیں آگے پیچھے ساتھ ساتھ دھیرے دھیرے یا تیز قدموں سے جیسے خرام کرتی ہے ہوا بے پناہ راتوں میں کانٹوں اور جھاڑیوں میں بے خبری کے نقشوں میں چلتی رہتی ہے کوئی بے معنی گفتگو عمر گزارنے کے لئے دوریوں کے درمیان ہجر و وصال کے کہرے میں یخ بستہ خاموش رستوں میں چلتی ...

    مزید پڑھیے

    رکنے اور چلنے کے درمیان

    دن لڑکھڑاتا ہے دنیا اپنے سکوت میں ڈگمگاتی ہے ہر شے قابل دید مگر گریزاں ہے سب کچھ نزدیک ہے مگر نا ممکن کتاب آئینہ کپڑے پنجرہ اور پرندہ اپنے ناموں کے سائے میں بے حرکت وقت دھڑکتا ہے میرے سینے میں لہو کی نہ بدلنے والی آزردہ تال پر دھوپ‌ چھاؤں سے بے نیاز دیوار مبنی بر وہم تصویروں کے ...

    مزید پڑھیے

    ایک اور افتخار کے نام

    تم تو کہتے تھے دنیا بدلنے کو ہے چھوٹے چھوٹے تھے ہم فلسفی کہہ کے سب چھیڑتے تھے تمہیں فلاں نے کہا ہے فلاں نے لکھا ہے کتابوں سے دیتے تھے اکثر حوالے سویرے سویرے مجھے روز لے جاتے تھے ساتھ اسٹال پر مفت اخبار پڑھنے یہ دھن تھی کہ بس ہو نہ ہو آج دنیا بدلنے کی اچھی خبر چھپ گئی ہو زمانے کی ...

    مزید پڑھیے

    میں سوچتا ہوں

    میں سوچتا ہوں اگر دو راستے ہوتے تم تک جانے کے لئے کسی باغ میں چہل قدمی کی طرح یخ بستہ پہاڑوں میں سفید سرنگوں جیسے اگر دو خواب ہوتے سہمی ہوئی خاموش راتوں میں جاگنے کے لئے سونے کے لئے اگر دو جنگل ہوتے پر اسرار بھٹکنے کے لئے یا دنیا داروں سے کٹنے کے لئے اگر دو پرندے ہوتے محبت کے ...

    مزید پڑھیے

    چلنا اور سوچنا

    شاید ایک ساتھ سیکھتا ہے آدمی چلنا اور سوچنا ایک صحن میں ایک دن میں سیکھ گیا چلنا اور سوچنا چڑیوں پودوں اور رنگ برنگے کیڑوں کے درمیان ماں کہتی تم اتنا چلتے ہو ایک سیدھ میں چلو تو شام تک پہنچ جاؤ کسی اور شہر میں میں نے آوارگی کی دوپہروں میں اکیلے تاروں بھری راتوں میں اداس ...

    مزید پڑھیے

    میں سونا چاہتا ہوں

    میں سونا چاہتا ہوں میں واپس اپنے گم شدہ خواب کی ناؤ میں سونا چاہتا ہوں مری ہوئی مچھلیوں جیسی تیز شر انگیز مہک کے زیر اثر ہوا یوں کہ میں نے اپنے بدن پر گیلی لذیذ انگلیوں کو رینگتے محسوس کیا وہ دو خوب صورت ہاتھ تھے مرجانی پتھر سے تراشیدہ کسی جادوئی خیال جیسی کنواری لاش میرے ...

    مزید پڑھیے

    قبروں پر بارش

    بارش گرتی ہے مٹیالی قبروں پر بارش گرتی ہے حد نظر تک جل تھل سیلا سیلا خواب مسلسل یاد نہیں میں نے بارش کو پہلی بار کہاں دیکھا تھا کھڑکی میں یا خواب میں چھت پر یا دریا کے کنارے ایفریقا کے بچوں کی بنجر آنکھوں میں یا بنگال میں ننگی لاشوں والے سوگی ساحلوں پر کتنی بارشیں دفن ہیں جانے ...

    مزید پڑھیے

    بلیک آؤٹ

    وہ اک سہما ہوا چھوٹا سا بچہ تھا اور اس کے امتحاں نزدیک تھے اپنی کتابوں سے ابھی اس کو بہت چیزیں زبانی یاد کرنا تھیں مگر اس رات اس کے شہر کی سب بتیاں گل تھیں اسے پڑھنا تھا لیکن روشنی بس دور توپوں کے دہانوں سے نکلتی تھی

    مزید پڑھیے

    البترا

    کتنے سمندر کتنے صحرا جنگل اور بارشیں بے شمار آئینوں کا خالی پن لمحے یا صدیاں عبور کر کے داخل ہوئی میری تنہائی تیری تنہائی میں اے شہر گل سرخ اے عظیم خوب صورت پتھر مجھے خزانے سے کوئی سروکار نہیں جہاں کھونٹے سے بندھا لال گھوڑا تئیس سو برس کی بے خوابی میں ایستادہ ہے مجھے فقط تیری ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2