رکنے اور چلنے کے درمیان

دن لڑکھڑاتا ہے
دنیا اپنے سکوت میں ڈگمگاتی ہے
ہر شے قابل دید
مگر گریزاں ہے
سب کچھ نزدیک ہے
مگر نا ممکن
کتاب آئینہ کپڑے
پنجرہ اور پرندہ
اپنے ناموں کے سائے میں
بے حرکت
وقت دھڑکتا ہے
میرے سینے میں
لہو کی نہ بدلنے والی
آزردہ تال پر
دھوپ‌ چھاؤں سے بے نیاز دیوار
مبنی بر وہم تصویروں کے تمثال گھر
میں بدل جاتی ہے
میں خود کو اپنی ذات پر پہرہ دیتی
آنکھ کے مرکز میں چھپاتا ہوں
میں سمٹتا ہوں
میں بکھرتا ہوں
میں فقط ایک وقفہ ہوں
رکنے اور چلنے کے درمیان
جینے اور مرنے کے درمیان
میں ایک آہٹ ہوں
نا قابل شنید
مہین پل کے لئے
رات بظاہر بے کنار ہے
پھر بھی میں سر کو اٹھاتا ہوں
آسمان پر ستاروں کی مخفی تحریر
اچانک مجھ پر مسکراتی ہے
اور انجانے میں
میں جان جاتا ہوں
کہ مجھے لکھا گیا
مٹنے کے لئے