Idris Babar

ادریس بابر

پاکستان کے نوجوان شاعر

Prominent among new generation poets of Pakistan

ادریس بابر کی غزل

    انسانی درندے اور اس آسانی سے مر جائیں

    انسانی درندے اور اس آسانی سے مر جائیں یہ سوچنے بیٹھیں تو پریشانی سے مر جائیں وہ جن کو میسر تھی ہر اک چیز دگر بھی ممکن ہے سہولت کی فراوانی سے مر جائیں کشتی پہ تھے کشتی کو جلاتے ہوئے حضرات اب آگ سے بچ جائیں بھلے پانی سے مر جائیں آئینے کا یہ کون سا سیزن ہے ہمیں کیا دیوار کو تکتے ...

    مزید پڑھیے

    دل کوئی آئینہ نہیں ٹوٹ کے رہ گیا تو پھر

    دل کوئی آئینہ نہیں ٹوٹ کے رہ گیا تو پھر ٹھیک ہی کہہ رہے ہو تم ٹھیک نہ ہو سکا تو پھر اس کو بھلانے لگ گئے اس میں زمانے لگ گئے بعد میں یاد آ گیا وہ کوئی اور تھا تو پھر پھول ہے جو کتاب میں اصل ہے کہ خواب ہے اس نے اس اضطراب میں کچھ نہ پڑھا لکھا تو پھر راستے اجنبی سے تھے پیڑ تھے سو کسی کے ...

    مزید پڑھیے

    اور وحشت ہے ارادہ میرا

    اور وحشت ہے ارادہ میرا حق ہے صحرا پہ زیادہ میرا تو یہی کچھ ہے وہ دنیا یعنی ایک متروک ارادہ میرا رات نے دل کی طرف ہاتھ بڑھائے یہ ستارا بھی ہے آدھا میرا آب جو میں تو چلا جلدی ہے اک سمندر سے ہے وعدہ میرا دھول اڑتی ہے تو یاد آتا ہے کچھ ملتا جلتا تھا لبادہ میرا

    مزید پڑھیے

    دیکھا نہیں چاند نے پلٹ کر

    دیکھا نہیں چاند نے پلٹ کر ہم سو گئے خواب سے لپٹ کر اب دل میں وہ سب کہاں ہے دیکھو بغداد کہانیوں سے ہٹ کر شاید یہ شجر وہی ہو جس پر دیکھو تو ذرا ورق الٹ کر اک خوف زدہ سا شخص گھر تک پہنچا کئی راستوں میں بٹ کر کاغذ پہ وہ نظم کھل اٹھی ہے اگ آیا ہے پھر درخت کٹ کر بابرؔ یہ پرند تھک گئے ...

    مزید پڑھیے

    کرتے پھرتے ہیں غزالاں ترا چرچا صاحب

    کرتے پھرتے ہیں غزالاں ترا چرچا صاحب ہم بھی نکلے ہیں تجھے دیکھنے صحرا صاحب یہ کچھ آثار ہیں اک خواب شدہ بستی کے یہیں بہتا تھا وہ دل نام کا دریا صاحب تھا یہی حال ہمارا بھی مگر جاگتے ہیں کیا عجب خواب سنایا ہے دوبارہ صاحب سہل مت جان کہ تجھ رخ پہ خدا ہوتے ہوئے دل ہوا جاتا ہے گرد رہ ...

    مزید پڑھیے

    میں کچھ دنوں میں اسے چھوڑ جانے والا تھا

    میں کچھ دنوں میں اسے چھوڑ جانے والا تھا جہاز غرق ہوا جو خزانے والا تھا گلوں سے بوئے شکست اٹھ رہی ہے نغمہ گرو یہیں کہیں کوئی کوزے بنانے والا تھا عجیب حال تھا اس دشت کا میں آیا تو نہ خاک تھی نہ کوئی خاک اڑانے والا تھا تمام دوست الاؤ کے گرد جمع تھے اور ہر ایک اپنی کہانی سنانے والا ...

    مزید پڑھیے

    دریا وہ کہاں رہا ہے جو تھا

    دریا وہ کہاں رہا ہے جو تھا یہ شہر کا آخری قصہ گو تھا جو خاک سی دل میں اڑ رہی ہے یاں کوئی غزال ہو نہ ہو تھا اب سے یہ ہمارا گھر نہیں خیر پہلے بھی نہ تھا خیال تو تھا ثابت نہیں کر سکو گے تم لوگ کیا میرا وجود تھا چلو تھا دونوں گھڑیوں پر ہجر کا وقت ہونا نہیں چاہیے تھا سو تھا اس خواب ...

    مزید پڑھیے

    یہاں سے چاروں طرف راستے نکلتے ہیں

    یہاں سے چاروں طرف راستے نکلتے ہیں ٹھہر ٹھہر کے ہم اس خواب سے نکلتے ہیں کسی کسی کو ہے تہذیب دشت آرائی کئی تو خاک اڑاتے ہوئے نکلتے ہیں یہاں رواج ہے زندہ جلا دیے جائیں وہ لوگ جن کے گھروں سے دیے نکلتے ہیں عجیب دشت ہے دل بھی جہاں سے جاتے ہوئے وہ خوش ہیں جیسے کسی باغ سے نکلتے ہیں یہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ گل وہ خوابشار بھی نہیں رہا

    وہ گل وہ خوابشار بھی نہیں رہا سو دل یہ خاکسار بھی نہیں رہا یہ دل تو اس کے نام کا پڑاؤ ہے جہاں وہ ایک بار بھی نہیں رہا پڑا ہے خود سے واسطہ اور اس کے بعد کسی کا اعتبار بھی نہیں رہا یہ رنج اپنی اصل شکل میں ہے دوست کہ میں اسے سنوار بھی نہیں رہا یہ وقت بھی گزر نہیں رہا ہے اور میں خود ...

    مزید پڑھیے

    تری گلی سے گزرنے کو سر جھکائے ہوئے

    تری گلی سے گزرنے کو سر جھکائے ہوئے فقیر حجرۂ ہفت آسماں اٹھائے ہوئے کوئی درخت سرائے کہ جس میں جا بیٹھیں پرندے اپنی پریشانیاں بھلائے ہوئے مرے سوال وہی ٹوٹ پھوٹ کی زد میں جواب ان کے وہی ہیں بنے بنائے ہوئے ہمیں جو دیکھتے تھے جن کو دیکھتے تھے ہم وہ خواب خاک ہوئے اور وہ لوگ سائے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4