Idris Babar

ادریس بابر

پاکستان کے نوجوان شاعر

Prominent among new generation poets of Pakistan

ادریس بابر کی غزل

    گل سخن سے اندھیروں میں تاب کاری کر

    گل سخن سے اندھیروں میں تاب کاری کر نئے ستارے کھلا خواب شار جاری کر بس اب فقیر کی دنیا میں اور دخل نہ دے تری بساط ہے دل بھر سو شہر یاری کر میں کاروبار جہاں کو سمیٹ کر آیا بس اتنی دیر تو دل کی نگاہ داری کر یہیں کہیں کسی لمحے میں دل بھی ہے لرزاں توجہ سارے زمانوں پہ باری باری کر وہی ...

    مزید پڑھیے

    سو دنیا میں جینا بسنا دل کو مرنے مت دینا

    سو دنیا میں جینا بسنا دل کو مرنے مت دینا یار کرایہ دار کو گھر پر قبضہ کرنے مت دینا جاب ضروری ہوتی ہے صاحب مجبوری ہوتی ہے جاب کے گھن چکر میں پڑ کر خواب بکھرنے مت دینا ایسی لہریں ایسی بحریں کب قسمت سے ملتی ہیں اچھے مانجھی اب نیا کو پار اترنے مت دینا ایک دفعہ کا ذکر ہے دونوں اک ...

    مزید پڑھیے

    اس سے پہلے کہ زمیں زاد شرارت کر جائیں

    اس سے پہلے کہ زمیں زاد شرارت کر جائیں ہم ستاروں نے یہ سوچا ہے کہ ہجرت کر جائیں دولت خواب ہمارے جو کسی کام نہ آئی اب کسی کو نہیں ملنے کی وصیت کر جائیں دہر سے ہم یوں ہی بیکار چلے جاتے تھے پھر یہ سوچا کہ چلو ایک محبت کر جائیں اک ذرا وقت میسر ہو تو آ کر مرے دوست دل میں کھلتے ہوئے ...

    مزید پڑھیے

    دل میں ہے اتفاق سے دشت بھی گھر کے ساتھ ساتھ

    دل میں ہے اتفاق سے دشت بھی گھر کے ساتھ ساتھ اس میں قیام بھی کریں آپ سفر کے ساتھ ساتھ درد کا دل کا شام کا بزم کا مے کا جام کا رنگ بدل بدل گیا ایک نظر کے ساتھ ساتھ خواب اڑا دیے گئے پیڑ گرا دیے گئے دونوں بھلا دیے گئے ایک خبر کے ساتھ ساتھ شاخ سے اس کتاب تک خاک سے لے کے خواب تک جائے گا ...

    مزید پڑھیے

    مطلع غزل کا غیر ضروری کیا کیوں کب کا حصہ ہے

    مطلع غزل کا غیر ضروری کیا کیوں کب کا حصہ ہے زندگی چاکلیٹ کیک ہے تھوڑا تھوڑا سب کا حصہ ہے اب جو بار میں تنہا پیتا ہوں کافی کے نام پہ زہر اس کی تلخ سی شیرینی میں اس کے لب کا حصہ ہے لوک کہانیوں میں مابعد جدید کی پیش آمد جیسے فکشن کی ری سیل ویلیو میں مذہب کا حصہ ہے کے پی کے افغانستان ...

    مزید پڑھیے

    اب مسافت میں تو آرام نہیں آ سکتا

    اب مسافت میں تو آرام نہیں آ سکتا یہ ستارہ بھی مرے کام نہیں آ سکتا یہ مری سلطنت خواب ہے آباد رہو اس کے اندر کوئی بہرام نہیں آ سکتا جانے کھلتے ہوئے پھولوں کو خبر ہے کہ نہیں باغ میں کوئی سیہ فام نہیں آ سکتا ہر ہوا خواہ یہ کہتا تھا کہ محفوظ ہوں میں بجھنے والوں میں مرا نام نہیں آ ...

    مزید پڑھیے

    کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے

    کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے مرے عزیز کو ہر اک بہانہ آتا ہے ذرا سا مل کے دکھاؤ کہ ایسے ملتے ہیں بہت پتا ہے تمہیں چھوڑ جانا آتا ہے ستارے دیکھ کے جلتے ہیں آنکھیں ملتے ہیں اک آدمی لئے شمع فسانہ آتا ہے ابھی جزیرے پہ ہم تم نئے نئے تو ہیں دوست ڈرو نہیں مجھے سب کچھ بنانا آتا ...

    مزید پڑھیے

    خموش رہ کے زوال سخن کا غم کئے جائیں

    خموش رہ کے زوال سخن کا غم کئے جائیں سوال یہ ہے کہ یوں کتنی دیر ہم کئے جائیں یہ نقش گر کے لیے سہل بھی نہ ہو شاید کہ ہم سے اور بھی اس خاک پر رقم کئے جائیں کئی گزشتہ زمانے کئی شکستہ نجوم جو دسترس میں ہیں لفظوں میں کیسے ضم کئے جائیں یہ گوشوارے زباں کے بہت سنبھال چکے سو شعر کاٹ دیے ...

    مزید پڑھیے

    میں اسے سوچتا رہا یعنی

    میں اسے سوچتا رہا یعنی وہ مرا خواب ہے خدا یعنی ہجر سے ہجر تک تھی یہ ہجرت وہ ملا یعنی کھو گیا یعنی گردش مہر و ماہ کا حاصل یعنی میرا وجود لا یعنی دل کہاں شہسوار دنیا تھا سو گرا گر کے مر گیا یعنی تو مجھے اس کا نام بھول گیا ہو گیا میں بھی لاپتا یعنی کام کی بات پوچھتے کیا ہو کچھ ہوا ...

    مزید پڑھیے

    ربط اسیروں کو ابھی اس گل تر سے کم ہے

    ربط اسیروں کو ابھی اس گل تر سے کم ہے ایک رخنہ سا ہے دیوار میں در سے کم ہے حرف کی لو میں ادھر اور بڑھا دیتا ہوں آپ بتلائیں تو یہ خواب جدھر سے کم ہے ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت پھر بھی اے دوست تری ایک نظر سے کم ہے سوچ لو میں بھی ہوا چپ تو گراں گزرے گا یہ اندھیرا جو مرے شور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 4