وہ گل وہ خوابشار بھی نہیں رہا

وہ گل وہ خوابشار بھی نہیں رہا
سو دل یہ خاکسار بھی نہیں رہا


یہ دل تو اس کے نام کا پڑاؤ ہے
جہاں وہ ایک بار بھی نہیں رہا


پڑا ہے خود سے واسطہ اور اس کے بعد
کسی کا اعتبار بھی نہیں رہا


یہ رنج اپنی اصل شکل میں ہے دوست
کہ میں اسے سنوار بھی نہیں رہا


یہ وقت بھی گزر نہیں رہا ہے اور
میں خود اسے گزار بھی نہیں رہا