تری گلی سے گزرنے کو سر جھکائے ہوئے

تری گلی سے گزرنے کو سر جھکائے ہوئے
فقیر حجرۂ ہفت آسماں اٹھائے ہوئے


کوئی درخت سرائے کہ جس میں جا بیٹھیں
پرندے اپنی پریشانیاں بھلائے ہوئے


مرے سوال وہی ٹوٹ پھوٹ کی زد میں
جواب ان کے وہی ہیں بنے بنائے ہوئے


ہمیں جو دیکھتے تھے جن کو دیکھتے تھے ہم
وہ خواب خاک ہوئے اور وہ لوگ سائے ہوئے


شکاریوں سے مرے احتجاج میں بابرؔ
درخت آج بھی شامل تھے ہاتھ اٹھائے ہوئے