ہوش بلگرامی کی غزل

    محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری

    محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری کوئی کیا کرے گا مری غم گساری وہی کامیابی کے اسرار سمجھا محبت کی بازی یہاں جس نے ہاری تمہارے اشاروں پہ چلتی ہے دنیا نہ مختار یاں ہیں نہ بے اختیاری مرے دل کو پتھر خدارا نہ سمجھو نگاہیں پھر اس پر نگاہیں تمہاری محبت کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے یہی درد ...

    مزید پڑھیے

    مجھے یاد ہیں وہ دن جو تری بزم میں گزارے

    مجھے یاد ہیں وہ دن جو تری بزم میں گزارے وہ جھکی جھکی نگاہیں وہ دبے دبے اشارے یہ ترا سکوت رنگیں یہ ادائے بے نیازی کہیں بجھ کے رہ نہ جائیں مری روح کے شرارے کبھی شوق زندگی تھا کبھی لطف سر خوشی تھا مگر اب تو جی رہا ہوں تری یاد کے سہارے یہ چمن چمن بہاریں یہ رواں دواں ہوائیں انہیں کیا ...

    مزید پڑھیے

    فکر ہستی ہے نہ احساس اجل

    فکر ہستی ہے نہ احساس اجل یہ خرد ہے یا دماغوں کا خلل زندگی بے کشمکش ملتی نہیں آندھیوں سے کھیل طوفانوں میں چل چھا رہی ہیں عبرتیں ہی عبرتیں حلقۂ اوہام ہستی سے نکل یہ محبت کی رہ‌ دشوار ہے ڈگمگاتے ہیں قدم ناداں سنبھل غم سے ہوتی ہے حقیقت آشکار مضطرب موجوں میں کھلتا ہے کنول وقت کی ...

    مزید پڑھیے

    ہوشؔ اس پر کسی کا بس نہ چلا

    ہوشؔ اس پر کسی کا بس نہ چلا وقت جب آ گیا تو پھر نہ ٹلا سوز باطن کے ہیں یہ سب جلوے آگ روشن ہے لے چراغ جلا نہ چلا دل پہ زندگی کا فریب سخت لوہا اس آنچ سے نہ گلا کہہ رہا تھا گدائے راہ نشین جو بھلا تھا ہوا اسی کا بھلا وہ مرا مدعا سمجھ کے رہے ضبط فریاد سے نہ کام چلا راز ہستی نہ کھل سکا ...

    مزید پڑھیے

    وہی صبح کا دھندھلکا وہی منزلیں وہی شب

    وہی صبح کا دھندھلکا وہی منزلیں وہی شب کوئی کیا سمجھ سکے گا غم زندگی کا مطلب مری بے قراریاں ہیں مری زندگی کا حاصل یہی مسلک محبت یہی اہل دل کا مذہب مرے غم کی پرسشوں سے انہیں اجتناب کیوں ہے وہ سمجھ گئے ہیں شاید مری ہر نظر کا مطلب غم دل ہے راز ہستی نہ بلندیاں نہ پستی یہ حقیقتیں تو ...

    مزید پڑھیے

    سناؤں تمہیں زندگی کی کہانی

    سناؤں تمہیں زندگی کی کہانی غم جاودانی غم جاودانی نہ سمجھا وہ اسرار ہستی نہ سمجھا یہاں جس نے غم کی حقیقت نہ جانی محبت میں اک درس عبرت بنے گی مری نا مرادی مری سخت جانی محبت کی دنیا لٹی جا رہی ہے جوانی اور اس پر کسی کی جوانی تصور میں ہیں عہد ماضی کی باتیں نہ وہ سر خوشی ہے نہ وہ ...

    مزید پڑھیے

    میں نے اب سمجھا ہے راز کائنات

    میں نے اب سمجھا ہے راز کائنات کر رہا ہوں غم سے تعمیر حیات کس توقع پر بناؤں آشیاں زندگی ہے اور برق حادثات منزل غم اس قدر آساں نہ تھی رہ گئے منہ دیکھ کر صبر و ثبات جو محبت سے رہا ناآشنا ہو کے رہ جاتا ہے ننگ کائنات چھا رہی ہیں ہر طرف حیرانیاں عقل ہے بیگانۂ راز حیات میرے رخ پر تو ...

    مزید پڑھیے

    اب آؤ سرود غم سنائیں

    اب آؤ سرود غم سنائیں سوتی ہوئی روح کو جگائیں اجزائے حیات منتشر ہیں آئین حیات کیا بنائیں ہو جاؤں میں زندگی سے بیزار اتنا بھی نہ آپ آزمائیں بجھنے کو ہے شمع زندگانی کیا آپ کو حال دل سنائیں میں خوگر درد ہو چلا ہوں اچھا ہے کہ آپ اب نہ آئیں عشرت کے فریب کھانے والے جینا ہے اگر تو غم ...

    مزید پڑھیے

    نہ کام فکر سے نکلا نہ چل سکی تدبیر

    نہ کام فکر سے نکلا نہ چل سکی تدبیر کسی طرح سے نہ بدلی پھری ہوئی تقدیر ضمیر دہر سے اندیشۂ خزاں نہ گیا بہار میں بھی زمانہ ہے درد کی تصویر تعینات میں الجھی ہوئی ہے فکر حیات مرے زوال کی تمہید ہے مری تعمیر اب اعتراف خطا پر نہ اس نگاہ سے دیکھ کہ ہو نہ جائے کہیں مجھ سے پھر کوئی ...

    مزید پڑھیے

    مآل کار نہ کچھ بھی ہوا تو کیا ہوگا

    مآل کار نہ کچھ بھی ہوا تو کیا ہوگا نہ ہم رہے نہ زمانہ رہا تو کیا ہوگا میں ہنس رہا ہوں زمانہ کی شاد کامی پر چراغ عیش جو گل ہو گیا تو کیا ہوگا مجھے فریب نہ دے اے طلسم خواب و خیال رخ حیات اگر پھر گیا تو کیا ہوگا ضمیر دہر میں وہ زندگی کی لہر کہاں دلوں میں سوز محبت رہا تو کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2