ہوش بلگرامی کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری

    محبت کی فطرت ہے یہ بے قراری کوئی کیا کرے گا مری غم گساری وہی کامیابی کے اسرار سمجھا محبت کی بازی یہاں جس نے ہاری تمہارے اشاروں پہ چلتی ہے دنیا نہ مختار یاں ہیں نہ بے اختیاری مرے دل کو پتھر خدارا نہ سمجھو نگاہیں پھر اس پر نگاہیں تمہاری محبت کی قسمت میں لکھی ہوئی ہے یہی درد ...

    مزید پڑھیے

    مجھے یاد ہیں وہ دن جو تری بزم میں گزارے

    مجھے یاد ہیں وہ دن جو تری بزم میں گزارے وہ جھکی جھکی نگاہیں وہ دبے دبے اشارے یہ ترا سکوت رنگیں یہ ادائے بے نیازی کہیں بجھ کے رہ نہ جائیں مری روح کے شرارے کبھی شوق زندگی تھا کبھی لطف سر خوشی تھا مگر اب تو جی رہا ہوں تری یاد کے سہارے یہ چمن چمن بہاریں یہ رواں دواں ہوائیں انہیں کیا ...

    مزید پڑھیے

    فکر ہستی ہے نہ احساس اجل

    فکر ہستی ہے نہ احساس اجل یہ خرد ہے یا دماغوں کا خلل زندگی بے کشمکش ملتی نہیں آندھیوں سے کھیل طوفانوں میں چل چھا رہی ہیں عبرتیں ہی عبرتیں حلقۂ اوہام ہستی سے نکل یہ محبت کی رہ‌ دشوار ہے ڈگمگاتے ہیں قدم ناداں سنبھل غم سے ہوتی ہے حقیقت آشکار مضطرب موجوں میں کھلتا ہے کنول وقت کی ...

    مزید پڑھیے

    ہوشؔ اس پر کسی کا بس نہ چلا

    ہوشؔ اس پر کسی کا بس نہ چلا وقت جب آ گیا تو پھر نہ ٹلا سوز باطن کے ہیں یہ سب جلوے آگ روشن ہے لے چراغ جلا نہ چلا دل پہ زندگی کا فریب سخت لوہا اس آنچ سے نہ گلا کہہ رہا تھا گدائے راہ نشین جو بھلا تھا ہوا اسی کا بھلا وہ مرا مدعا سمجھ کے رہے ضبط فریاد سے نہ کام چلا راز ہستی نہ کھل سکا ...

    مزید پڑھیے

    وہی صبح کا دھندھلکا وہی منزلیں وہی شب

    وہی صبح کا دھندھلکا وہی منزلیں وہی شب کوئی کیا سمجھ سکے گا غم زندگی کا مطلب مری بے قراریاں ہیں مری زندگی کا حاصل یہی مسلک محبت یہی اہل دل کا مذہب مرے غم کی پرسشوں سے انہیں اجتناب کیوں ہے وہ سمجھ گئے ہیں شاید مری ہر نظر کا مطلب غم دل ہے راز ہستی نہ بلندیاں نہ پستی یہ حقیقتیں تو ...

    مزید پڑھیے

تمام