نہ کام فکر سے نکلا نہ چل سکی تدبیر

نہ کام فکر سے نکلا نہ چل سکی تدبیر
کسی طرح سے نہ بدلی پھری ہوئی تقدیر


ضمیر دہر سے اندیشۂ خزاں نہ گیا
بہار میں بھی زمانہ ہے درد کی تصویر


تعینات میں الجھی ہوئی ہے فکر حیات
مرے زوال کی تمہید ہے مری تعمیر


اب اعتراف خطا پر نہ اس نگاہ سے دیکھ
کہ ہو نہ جائے کہیں مجھ سے پھر کوئی تقصیر


زبان عام میں کہتے ہیں کائنات جسے
حقیقت غم دل کی ہے مختصر تفسیر


نہیں خدا کی زمیں تنگ اے چمن والو
کریں گے اور کہیں ہم اب آشیاں تعمیر


زمانہ ہوشؔ بدلنے کو ہے نئی کروٹ
بجھے پڑے ہیں بہت دن سے قلب و روح و ضمیر