وہی صبح کا دھندھلکا وہی منزلیں وہی شب
وہی صبح کا دھندھلکا وہی منزلیں وہی شب
کوئی کیا سمجھ سکے گا غم زندگی کا مطلب
مری بے قراریاں ہیں مری زندگی کا حاصل
یہی مسلک محبت یہی اہل دل کا مذہب
مرے غم کی پرسشوں سے انہیں اجتناب کیوں ہے
وہ سمجھ گئے ہیں شاید مری ہر نظر کا مطلب
غم دل ہے راز ہستی نہ بلندیاں نہ پستی
یہ حقیقتیں تو سمجھا دل بے خبر مگر کب
نہ مری خزاں مقرر نہ مری بہار قائم
جو مجھے ملی ہے یہ بھی کوئی زندگی ہے یا رب
میں حدیث غم سناؤں میں وفا کا ساز چھیڑوں
جو زباں نہ کھل سکی تو جو کسی نے سی دئے لب
کوئی ہوشؔ کہہ سکا ہے غم دل کبھی زباں سے
وہ سوال کر رہے ہیں میں کہوں تو کیا کہوں اب