Hina Ambareen

حنا عنبرین

حنا عنبرین کی غزل

    یاد پر انگلیاں اٹھاتی ہوں

    یاد پر انگلیاں اٹھاتی ہوں خواب پر تہمتیں لگاتی ہوں کیا کہا دشت کا ارادہ ہے تو چلو ساتھ میں بھی آتی ہوں وہ جو مجھ سے کبھی ملا ہی نہیں میں اسے رات دن ستاتی ہوں اس کو رکھا ہے فکر سے آزاد خود پہ پابندیاں لگاتی ہوں نا کہیں خواب جان جائیں مرا پھول سے تتلیاں اڑاتی ہوں در کا دستک کے ...

    مزید پڑھیے

    کسی کی یاد میں بے کل رہی ہے

    کسی کی یاد میں بے کل رہی ہے وہ اک لڑکی جو آنکھیں مل رہی ہے کسی کی راہ کو اتنا تکا تھا ہماری آنکھ برسوں شل رہی ہے چھپا تو لی ہے اپنی پیاس ہم نے مگر جو چیخ اندر پل رہی ہے کسی نے پاؤں سے زنجیر باندھی کسی کے پاؤں میں پائل رہی ہے مگر سچ ہے کہ اک صورت کسی کی ہماری آنکھ کا کاجل رہی ...

    مزید پڑھیے

    وقت کے کان کون بھر رہا ہے

    وقت کے کان کون بھر رہا ہے وقت ویسے بھی تو گزر رہا ہے سال دو چار پیچھے ہو گئے ہیں آئنہ دیکھ کر سنور رہا ہے کون رہتا ہے پار دریا کے یہ جو پانی ہے کیوں بپھر رہا ہے یہ اداسی بھی بے سبب تو نہیں دل کسی جستجو میں مر رہا ہے تھام کر ہاتھ میرا ہاتھوں میں بات بے بات کیوں مکر رہا ہے دور ہی ...

    مزید پڑھیے

    خود کو پہروں تھکاتی ہوں میں

    خود کو پہروں تھکاتی ہوں میں یاد کے بت بناتی ہوں میں دھیان ہٹتا نہیں ہے مرا دھیان تجھ سے ہٹاتی ہوں میں کون تیرے سوا ہے مرا تجھ کو اپنا بناتی ہوں میں جب مجھے یاد آتا ہے وہ دو جہاں بھول جاتی ہوں میں خواب ہے تیری چاہت مجھے خواب خود کو دکھاتی ہوں میں جل رہا ہے دیے سے دیا بانٹتی ہوں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2