کسی کی یاد میں بے کل رہی ہے

کسی کی یاد میں بے کل رہی ہے
وہ اک لڑکی جو آنکھیں مل رہی ہے


کسی کی راہ کو اتنا تکا تھا
ہماری آنکھ برسوں شل رہی ہے


چھپا تو لی ہے اپنی پیاس ہم نے
مگر جو چیخ اندر پل رہی ہے


کسی نے پاؤں سے زنجیر باندھی
کسی کے پاؤں میں پائل رہی ہے


مگر سچ ہے کہ اک صورت کسی کی
ہماری آنکھ کا کاجل رہی ہے


کوئی آواز مجھ میں گونجتی تھی
ہمیشہ مجھ میں اک ہلچل رہی ہے


بسا رہتا ہے مجھ میں شور کیسا
یہ کیسی آگ مجھ میں جل رہی ہے


میں دھاڑیں مار کر جو ہنس رہی ہوں
مری وحشت بھی اس کو کھل رہی ہے


تمہاری یاد اک لوہے کی کنگھی
مسلسل ہڈیوں پر چل رہی ہے