حنانہ برجیس کی غزل

    دھند کو راستہ کرے کوئی

    دھند کو راستہ کرے کوئی حق کسی کا ادا کرے کوئی موت اس کی ہے زندگی اس کی آ کے دنیا میں کیا کرے کوئی چاہتی ہوں کہ جیت جاؤں میں پر نہ ہارے خدا کرے کوئی توڑ دے پتھروں سے پانی کو اب تو مجھ کو رہا کرے کوئی اب نہ آئے گا کوئی پیغمبر اب نہ ایسی دعا کرے کوئی

    مزید پڑھیے

    جھیل کہ تہہ میں پڑے مردہ شکاروں کی طرح

    جھیل کہ تہہ میں پڑے مردہ شکاروں کی طرح ڈوب جائیں گے کبھی ہم بھی ہزاروں کی طرح اس کی آنکھوں میں نئی رت کا ہے پیغام مگر پھیرتا بھی ہے نظر جاتی بہاروں کی طرح چار دیواروں کا دل آئنہ خانہ ہی سہی اک سمندر کو سنبھالے ہے کناروں کی طرح ڈل کے سینے سے اکھاڑے گئے سب سرخ کنول دیکھتے رہ گئے ...

    مزید پڑھیے

    یا ہر اک رنج مٹانے کا تو وعدہ کر دے

    یا ہر اک رنج مٹانے کا تو وعدہ کر دے یا مرے دل کو سمندر سا کشادہ کر دے میں روایات کی قائل نہیں ہو پاؤں گی میری ہمت تو زمانے سے زیادہ کر دے پھر نئی روح مرے جسم کو دے دے یا رب پھر مری ذات کسی ورق سی سادہ کر دے

    مزید پڑھیے

    میں نے ہر بار یہ خطا کی ہے

    میں نے ہر بار یہ خطا کی ہے تیرے حق میں سدا دعا کی ہے اپنی سچائیوں کی مجرم ہوں جھوٹ سے آج ابتدا کی ہے ہے عیاں مجھ پہ یہ وفا لیکن بات میری نہیں خدا کی ہے ہاتھ اٹھ کر گریں دعاؤں سے میں نے ایسی بھی کیا خطا کی ہے شعلہ شعلہ ہر اک گلستاں ہو اب کے مرضی یہی ہوا کی ہے

    مزید پڑھیے

    غم کا رشتہ عجیب ہوتا ہے

    غم کا رشتہ عجیب ہوتا ہے کون کس کا حبیب ہوتا ہے چاندنی سے جھلس گیا دامن اپنا اپنا نصیب ہوتا ہے آپ یوں ہی خفا ہیں قسمت سے چاند کس کے قریب ہوتا ہے بال اس میں پڑا نہیں ملتا دل کا شیشہ عجیب ہوتا ہے کیوں سمجھ میں کبھی نہیں آتا وہ جو سب سے قریب ہوتا ہے

    مزید پڑھیے

    بادلوں سے ٹوٹ برسے آج پانی دیر تک

    بادلوں سے ٹوٹ برسے آج پانی دیر تک اے خدا اس شب رہے یہ رت سہانی دیر تک جگنوؤں کی روشنی سے جھلملائیں راستے چاندنی سے ہم کریں یہ بے ایمانی دیر تک رات کی رنگین سڑکیں بھیگے بھیگے یہ شجر کار کے شیشوں سے جھانکے زندگانی دیر تک ٹوٹتے بجلی کے ٹکڑے چاند تارے روٹھتے آسماں سے دور رنگ ...

    مزید پڑھیے

    دھوپ میں ساتھ ہے گھٹا کی طرح

    دھوپ میں ساتھ ہے گھٹا کی طرح تو میرے لب پہ ہے دعا کی طرح مسکرانا ترا دعا کی طرح روٹھ جانا کسی سزا کی طرح تیرے چہرے سے میری نظروں کا واسطہ ہاتھ اور حنا کی طرح اس کو لوٹا دیا نگاہوں نے اشک تھا آنکھ میں خطا کی طرح اور اک بات میرے لب پہ ہے اور نہ سمجھے گا تو سدا کی طرح

    مزید پڑھیے

    آگے اس در کے راستہ کیا ہے

    آگے اس در کے راستہ کیا ہے تو نہیں ہے تو پھر بچا کیا ہے اک سزا سی ملی وفا تیری اور اس سے بڑی سزا کیا ہے میں نے مانگی ہے اک دعا یا رب اور مل جائے تو برا کیا ہے یوں تو کچھ بھی نہیں خلاؤں میں ایک چہرہ یہ چاند سا کیا ہے میری تنہائیوں میں گونجی ہے یہ تیرے نام سی صدا کیا ہے تو ہی کہہ دے ...

    مزید پڑھیے