بادلوں سے ٹوٹ برسے آج پانی دیر تک
بادلوں سے ٹوٹ برسے آج پانی دیر تک
اے خدا اس شب رہے یہ رت سہانی دیر تک
جگنوؤں کی روشنی سے جھلملائیں راستے
چاندنی سے ہم کریں یہ بے ایمانی دیر تک
رات کی رنگین سڑکیں بھیگے بھیگے یہ شجر
کار کے شیشوں سے جھانکے زندگانی دیر تک
ٹوٹتے بجلی کے ٹکڑے چاند تارے روٹھتے
آسماں سے دور رنگ آسمانی دیر تک
مسکرا کر موند لیں آنکھیں حناؔ یہ کیا ہوا
یاد آئی کیا تجھے پھر وہ کہانی دیر تک