Hasan Shahnawaz Zaidi

حسن شاہنواز زیدی

ممتاز مصور، شاعراور مترجم

حسن شاہنواز زیدی کی نظم

    با وفا

    شجر ہجرت نہیں کرتے بگڑتے موسموں روٹھی گھٹاؤں دور ہوتے پانیوں تک سے کبھی نفرت نہیں کرتے یہ اپنی اجتماعی قتل گاہوں کا تماشا دیکھتے ہیں پر نئے سرسبز میدانوں خنک جھیلوں کے متلاشی نہیں ہوتے زمیں سے اپنی پیوستہ طنابیں کھینچ کر اڑنے نہیں لگتے شجر ہجرت نہیں کرتے

    مزید پڑھیے

    فرنٹ پیج

    ہزاروں سال سے عورت حقارت گالیاں اور ٹھوکریں سہتی رہی ہے ہزاروں سال سے ہر سانس پر مرتی رہی ہے اب بھی ہر گھر میں یہ زندہ دفن ہوتی ہے مگر اس میں خبر کی بات ہی کوئی نہیں ہے تمہاری جامعہ پنجاب کی ہڑتال کا یہ چوتھا ہفتہ ہے زمینداروں نے پھر کچھ عورتوں کو گاؤں میں بندوق پر ننگا نچایا ...

    مزید پڑھیے

    اعترافات

    تو ان لڑکیوں میں سے تھی جن سے مل کر رگوں میں ہوس پھڑپھڑاتی پھرے مجھے تیری خواہش تھی اور تجھ کو میری مرے ہاتھ نے تیرے ہاتھوں سے تیرے بدن سے کئی بار باتیں بھی کیں ترے جسم کی نرم خاموشیاں مجھ کو ترغیب کے جنگلوں میں بلاتی رہیں ان گھنے راستوں سے پرے سبز پانی کا چشمہ چمکتا تھا پر اس کے ...

    مزید پڑھیے

    رشتہ

    الاؤ جلنے دو مت بجھاؤ چٹخنے دو رابطوں کے شیشے لپکنے دو حرف کی زبانیں بھڑکنے دو آگ نفرتوں کی دلوں کی لکڑی جلائے جاؤ ابھی تعلق کے سرد بستر کو برف کی سل نہیں بناؤ اگر عداوت بدن کو تاپے تو حرج کیا ہے ابھی کئی منزلیں پڑی ہیں ابھی کئی کوس دور ہے صبح کا پڑاؤ ابھی دہکنے دو حسرتوں کو الاؤ ...

    مزید پڑھیے

    درخواست

    تعلق اس طرح توڑا نہیں کرتے کہ پھر سے جوڑنا دشوار ہو جائے حیات اک زہر میں ڈوبی ہوئی تلوار ہو جائے محبت اس طرح چھوڑا نہیں کرتے خفا ہونے کی رسمیں ہیں بگڑنے کے طریقے ہیں رواج و رسم ترک دوستی پر سو کتابیں ہیں لکھا ہے جن میں رستہ وضع داری کا یوں ہی چھوڑا نہیں کرتے تعلق اس طرح توڑا نہیں ...

    مزید پڑھیے

    گھمنڈ

    موج ہوا کو اب خبروں کے دام سے بھی چھٹ جانے دو گہرے دھوئیں اور گرد کے بادل میں کاغذ اور ریت کے ذرے آدھے سچ کے ساتھ چمٹ کر اب گھر گھر تک آ پہنچے ہیں اپنی سانسیں روک رہے ہیں بین سنانا شور مچانا خاک اڑانا کب تک کب تک یہ سب کو دھمکانا تم بھی صبر کرو جبراً خود کو کیا مظلوم بنانا ممکن ...

    مزید پڑھیے

    خوشبو کا سفر

    میری ماں موت کی آغوش میں بھی خوب صورت تھی مجسم شکر و ایثار و وفا جو زندگی بھر خود جھلس کر ہم کو ٹھنڈی چھاؤں دی تھی اب اس کی چاند سی روشن جبیں پر درد کی گہری شکن سی آ گئی تھی پھر بھی اس کا زرد چہرہ پر سکوں تھا وہ جب تک ہوش میں تھا اس کے ہونٹوں پر دعائیں اس کی آنکھوں میں محبت تھی مری ...

    مزید پڑھیے