درخواست
تعلق اس طرح توڑا نہیں کرتے
کہ پھر سے جوڑنا دشوار ہو جائے
حیات اک زہر میں ڈوبی ہوئی تلوار ہو جائے
محبت اس طرح چھوڑا نہیں کرتے
خفا ہونے کی رسمیں ہیں
بگڑنے کے طریقے ہیں
رواج و رسم ترک دوستی پر سو کتابیں ہیں
لکھا ہے جن میں
رستہ وضع داری کا یوں ہی چھوڑا نہیں کرتے
تعلق اس طرح توڑا نہیں کرتے
کبھی بلبل گلوں کی خامشی سے روٹھ جاتی ہے
پر اگلے سال
سب کچھ بھول کر پھر لوٹ آتی ہے
اگر پودوں سے پانی دور ہو جائے
تو ہمسایہ درختوں کی جڑوں کے ہاتھ
پیغامات جاتے ہیں
محبت میں سبھی اک دوسرے کو آزماتے ہیں
مگر ایسا نہیں کرتے
کہ ہر امید ہر امکان مٹ جائے
کہاں تک کھینچنی ہے ڈور
یہ اندازہ رکھتے ہیں
ہمیشہ چار دیواری میں اک دروازہ رکھتے ہیں
جدائی مستقل ہو جائے
تو یہ زندگی زندان ہو جائے
اگر خوشبو ہواؤں سے مراسم منقطع کر لے
تو خود میں ڈوب کر بے جان ہو جائے
سنو
جینے سے منہ موڑا نہیں کرتے
محبت اس طرح چھوڑا نہیں کرتے