اعترافات

تو ان لڑکیوں میں سے تھی
جن سے مل کر
رگوں میں ہوس پھڑپھڑاتی پھرے
مجھے تیری خواہش تھی
اور تجھ کو میری
مرے ہاتھ نے تیرے ہاتھوں سے
تیرے بدن سے
کئی بار باتیں بھی کیں
ترے جسم کی نرم خاموشیاں
مجھ کو ترغیب کے جنگلوں میں بلاتی رہیں
ان گھنے راستوں سے پرے
سبز پانی کا چشمہ چمکتا تھا
پر اس کے نزدیک سنگ‌‌ سزا سے ادھر
تیری چاہت کی حد آ گئی تھی


محبت کا دعویٰ تجھے اب بھی ہے
پر تجھے پیار کرنا نہ آیا کبھی
تو نے جانا نہیں
کہ محبت میں چلنا ہے رکنا نہیں
اس میں سب کچھ گنوانا ہے
پانا نہیں
ہاں یہ کچھ اور ہی بات ہے
تو نہیں جانتی تھی
کہ گر پیار کرتی بھی تو
تب بھی میں
تیرے ماتھے پہ دھوکے کی کالک لگاتا
تجھے سبز پانی تلے چھوڑ آتا