Hasan Abidi

حسن عابدی

حسن عابدی کی غزل

    پہلے ہی بار دوش ہیں سر بھی گئے تو کیا

    پہلے ہی بار دوش ہیں سر بھی گئے تو کیا جاناں ہم اپنی جاں سے گزر بھی گئے تو کیا جینا متاع خویش نہ مرنا عطائے غیر جیتے رہے تو کیا ہے جو مر بھی گئے تو کیا دل خوں ہے ایک ترک محبت کے داغ سے رسوائیوں کے داغ اتر بھی گئے تو کیا مٹی میں اعتبار نمو ڈھونڈھتا ہوں میں بادل ہوا کے ساتھ بکھر بھی ...

    مزید پڑھیے

    پل رہے ہیں کتنے اندیشے دلوں کے درمیاں

    پل رہے ہیں کتنے اندیشے دلوں کے درمیاں رات کی پرچھائیاں جیسے دیوں کے درمیاں پھر کسی نے ایک خوں آلود خنجر رکھ دیا خوف کے ظلمت کدے میں دوستوں کے درمیاں کیا سنہری دور تھا ہم زرد پتوں کی طرح در بہ در پھرتے رہے پیلی رتوں کے درمیاں اے خدا انسان کی تقسیم در تقسیم دیکھ پارساؤں دیوتاؤں ...

    مزید پڑھیے

    صبح آنکھ کھلتی ہے ایک دن نکلتا ہے

    صبح آنکھ کھلتی ہے ایک دن نکلتا ہے پھر یہ ایک دن برسوں ساتھ ساتھ چلتا ہے کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہے اک ترے نہ ہونے سے ورنہ ایسی باتوں پر کون ہاتھ ملتا ہے قافلے تو صحرا میں تھک کے سو بھی جاتے ہیں چاند بادلوں کے ساتھ ساری رات چلتا ہے دل چراغ محفل ہے لیکن اس کے آنے تک بار بار بجھتا ہے بار ...

    مزید پڑھیے

    تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے

    تشنہ کاموں کو یہاں کون سبو دیتا ہے گل کو بھی ہاتھ لگاؤ تو لہو دیتا ہے نیشتر اور سہی کار دگر اور سہی دل صد چاک اگر اذن رفو دیتا ہے تاب فریاد بھی دے لذت بیداد بھی دے دینے والے جو مجھے سوز گلو دیتا ہے ہم تو برباد ہوئے برگ خزاں کی صورت شاخ گل کون تجھے ذوق نمو دیتا ہے منصفو ہاتھ سے ...

    مزید پڑھیے

    سفر میں ایک جگ تمام ہو گیا

    سفر میں ایک جگ تمام ہو گیا اب اپنے گھر کا راستہ بھی کھو گیا پھر اس کے پیرہن کی بو نہ مل سکی وہ میرے خوں میں آستیں ڈبو گیا وہ نیشتر جو اس کے ہاتھ میں نہ تھا گیا تو میری سانس میں پرو گیا اب آنسوؤں کی فصل کاٹتے رہو جدائیوں کے بیج وہ تو بو گیا نہ جانے کس نگر آج شام ہو سحر ہوئی تو جی ...

    مزید پڑھیے

    دل کی دہلیز پہ جب شام کا سایہ اترا

    دل کی دہلیز پہ جب شام کا سایہ اترا افق درد سے سینے میں اجالا اترا رات آئی تو اندھیرے کا سمندر امڈا چاند نکلا تو سمندر میں سفینہ اترا پہلے اک یاد سی آئی خلش جاں بن کر پھر یہ نشتر رگ احساس میں گہرا اترا جل چکے خواب تو سر نامہ تعبیر کھلا بجھ گئی آنکھ تو پلکوں پہ ستارا اترا سب ...

    مزید پڑھیے

    امید کا باب لکھ رہا ہوں

    امید کا باب لکھ رہا ہوں پتھر پہ گلاب لکھ رہا ہوں وہ شہر تو خواب ہو چکا ہے جس شہر کے خواب لکھ رہا ہوں اشکوں میں پرو کے اس کی یادیں پانی پہ کتاب لکھ رہا ہوں وہ چہرہ تو آئینہ نما ہے میں جس کو حجاب لکھ رہا ہوں صحرا میں وفور تشنگی سے سائے کو سحاب لکھ رہا ہوں لمحوں کے سوال سے ...

    مزید پڑھیے

    کون دیکھے میری شاخوں کے ثمر ٹوٹے ہوئے

    کون دیکھے میری شاخوں کے ثمر ٹوٹے ہوئے گھر سے باہر راستوں میں ہیں شجر ٹوٹے ہوئے لٹ گیا دن کا اثاثہ اور باقی رہ گئے شام کی دہلیز پر لعل و گہر ٹوٹے ہوئے یاد یاراں دل میں آئی ہوک بن کر رہ گئی جیسے اک زخمی پرندہ جس کے پر ٹوٹے ہوئے رات ہے اور آتی جاتی ساعتیں آنکھوں میں ہیں جیسے آئینے ...

    مزید پڑھیے

    اب یہی سایۂ دیوار مرا گھر ٹھہرا

    اب یہی سایۂ دیوار مرا گھر ٹھہرا اسے چھوڑوں بھی تو کیسے مرا پیکر ٹھہرا اب کسی اور جزیرے کا سفر کیوں کیجے میں بھی انسان ہوں آشوب کا خوگر ٹھہرا وقت کا اپنا سفر ابر کی اپنی منزل ایک پل کے لئے سایہ مرے در پر ٹھہرا پھر اسے پیاس کے صحرا سے پکارا میں نے میں کہ مواج سمندر کا شناور ...

    مزید پڑھیے

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں اس جان انجمن کے لیے بے قرار دل آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں میلاد ہو کہ مجلس غم مبتلا ترے آنگن میں دل کے فرش بچھائے ہوئے تو ہیں حزب حرم نے شوق جنوں کو بڑھا دیا سینے سے ہم بتوں کو لگائے ہوئے تو ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2