سفر میں ایک جگ تمام ہو گیا

سفر میں ایک جگ تمام ہو گیا
اب اپنے گھر کا راستہ بھی کھو گیا


پھر اس کے پیرہن کی بو نہ مل سکی
وہ میرے خوں میں آستیں ڈبو گیا


وہ نیشتر جو اس کے ہاتھ میں نہ تھا
گیا تو میری سانس میں پرو گیا


اب آنسوؤں کی فصل کاٹتے رہو
جدائیوں کے بیج وہ تو بو گیا


نہ جانے کس نگر آج شام ہو
سحر ہوئی تو جی اداس ہو گیا


گزر گئی جو بے گھروں پہ کیا کہیں
زمیں کو ابر برشگال دھو گیا


مری تو آنکھ نم نہ ہو سکی مگر
وہ مجھ پہ میرے آنسوؤں سے رو گیا


لکھے گا کون اس صدی کی داستاں
ہر ایک پل ہزار سال ہو گیا