پہلے ہی بار دوش ہیں سر بھی گئے تو کیا
پہلے ہی بار دوش ہیں سر بھی گئے تو کیا
جاناں ہم اپنی جاں سے گزر بھی گئے تو کیا
جینا متاع خویش نہ مرنا عطائے غیر
جیتے رہے تو کیا ہے جو مر بھی گئے تو کیا
دل خوں ہے ایک ترک محبت کے داغ سے
رسوائیوں کے داغ اتر بھی گئے تو کیا
مٹی میں اعتبار نمو ڈھونڈھتا ہوں میں
بادل ہوا کے ساتھ بکھر بھی گئے تو کیا
شبنم سے اپنی پیاس بجھاتی ہیں کھیتیاں
دریا سمندروں میں اتر بھی گئے تو کیا
طغیانیوں کی زد میں ٹھکانے سبھی کے ہیں
کشتی ڈبو کے پار اتر بھی گئے تو کیا
گھر میں تھا احتیاج کا دفتر کھلا ہوا
دفتر کی خاک چھان کے گھر بھی گئے تو کیا